محمد شہیر نیازی کو کوئی نہیں جانتا، جس نے صرف سولہ سال کی عمر میں فزکس میں ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر مغربی سائنسدانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا ، لیکن اس لڑکی کو آدھا پاکستان جانتا ہے جس نے صرف ” پاری ہوری اے ” کہہ کر راتوں رات شہرت کما لی۔اس کی پانچ سیکنڈ کی وڈیو نے پوری قوم کو ایک پاوں پر کھڑا کر دیا ، پوری قوم نے اس کو اتنی اہمیت دی کہ ہماری قومی کرکٹ ٹیم کو بھی اس کی پیروی کرنی پڑی ، انہوں نےسٹیڈیم سے وڈیو بنا کر بھیج دی۔۔یہ صرف ایک مثال ہے۔۔۔!جب کہ دوسری طرف دو دن پہلے اسی ملک کی اس قوم کی بیٹی ” مسماة زارا نعیم ” نے اے سی سی اے میں پوری دنیا میں پہلی پوزیشن لی مگر کیا کسی کو پتہ چلا ؟ کسی بڑے میڈیا پلیٹ فارم نے اس کو وائرل کیا ؟ کیا کسی ٹی وی چینل نے اس کو آن ائیر کیا؟ کیا کسی سیلیبرٹی نے ذکر کیا ؟ کہ ہم اس کو داد دے سکیں نہیں نا۔۔۔۔۔۔!ہمارا اصل مسئلہ صرف یہ ہی ہے کہ ہم اپنی قومی ترجیحات گانے ناچ ہنسی مذاق تک محدود کر دیتے ہیں انٹرنیشنل میڈیا پر خبریں چلی حتی کے انڈیا نے بھی زارا نعیم کو ترجیح دی۔ہم ہر مہینے اپنے کسی بچے کو اس کی اس طرح چھچھوری حرکتوں کی وجہ سے وائرل کر دیتے ہیں اور ان کو اگنور کر دیتے ہیں جن کے اندر قابلیت پائی جاتی ہے۔ پھر ہم خود ہی گلہ کرتے ہیں کہ ہماری نسل خراب ہو رہی ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ ان کی الٹی سیدھی حرکتوں کو ٹیلنٹ کا نام دیا جارہا۔۔۔!خدارا ایسا مت کریں ایسے لوگوں کو وائرل کریں جو تعلیم ، کھیلوں دیگر مثبت ایکٹیویٹیز کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔قارئین مجموعی طور دیکھا جائے تو ہم سوشل میڈیا پر ویورشپ کس چیز کی ہوتی ہے ڈانس مجرہ گانا چھچھورا پن اس طرح کی چیزیں۔۔۔!ہماری ترجیحات مکمل طور غلط سمت پر جا رہی ہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور خدارا ان بچوں کو سٹار بنائیں، وائرل کریں جو قابل ہیں اور پوری دنیا میں اپنا صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ تاکہ مزید بچے خواب دیکھ سکیں ناکہ وہ سستی شہرت کی خاطرطرح طرح کے چھچھورے پن کو اختیار کریں اور ہماری اگلی نسل کسی ایسے رستے پر چل پڑے جہاں سے واپسی کا رستہ دشوار ہو جائے۔دوستو! میں شکوہ نہیں کر رہا بس قوم کی ترجیحات بتا رہا ہوں۔
مصنف اسلامک سکالراور گرافک ڈیزائنر ہیں۔اصلاح معاشرہ پر قلم آزمائی کرتے ہیں