ہم لوگ جدیدیت کے اتنے قائل ہیں کہ آج کل کے دور میں ہر شخص آگے بڑھنا چاہتا ہے اور خود کو ماڈرن کہلوانے پر فخر محسوس کرتا ہے۔اردو میڈیم سکول کہ جہاں سے ہم جیسے لوگوں نے تعلیم حاصل کی وہ اب ماضی کا حصہ بنتا جا رہا ہے اور ہر شخص اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم میں پڑھانا چاہتاہے تاکہ ترقی کے اس دور میں ان کی اولاد پیچھے نہ رہ جائے ۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک اچھا ماحول مہیا کرنا چاہتےہیں تاکہ وہ ترقی کی دوڑ میں آگے نکلنے کے قابل ہوسکیں مگر اس چکر میں ہم نے اپنی تہذیب و ثقافت سے انہیں دور کر دیا ۔ ظاہر سی بات ہے وہ جس ماحول میں پرورش پائیں گے تو وہ اس کے عادی ہوتے جائیں گے۔ پھر انہیں بوڑھے والدین کو اولڈ ہاوس میں رکھنا مناسب لگتا ہےتاکہ ان کی ترقی کی دوڑ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
آپ کسی بھی بچے سے شیکسپئر کے بارے میں پوچھیں یا بل گیٹس کے وہ آپ کو پوری تفصیل بتائے گا مگر اسی بچے کو میثاق مدینہ کا علم نہیں ہوگا، اسے نہیں معلوم ہوگا کہ غزوہ احد میں کتنے صحابہ شہید ہوئے۔مسلمان گھرانے سے تعلق کی نسبت ہم اسے قرآن پاک پڑھاتے ضرور ہیں مگر سمجھاتے نہیں کہ اصل متاع حیات تو اسی میں ہے تو جتنی محنت دنیا کی تعلیم پہ لگاتے ہیں اتنی اس پر نہیں کہ جس سے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں ترقی و عظمت کی راہ ہموار ہوتی ہے ، ہم اپنے ہی بچوں کو اس سے دور کر دیتے ہیں اور انگریزی ادب و ثقافت کی تعلیم دے کر ہم یہ امید بھی لگا لیتے ہیں کہ اب وہ مشرقی ادب پر عمل بھی کرے، تو قصوروار ہم خود ہیں ہماری اولادنہیں۔
ساری زندگی مشینوں کی طرح کام کرکے ہم دنیا کماتے ہیں، ایک گھر میں کئی کئی لوگ کمانے والے بھی ہوں تب بھی گھر میں پیسہ تو بہت ہوتا ہے مگر سکون نہیں ہر فرد ایک بے چینی،کسی کمی یا ذہنی دباو کا شکار نظر آتاہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ معاشرہ میں تعلیم زیادہ ہونے کے باوجود اتنی گندگی کیوں ہے آئے روز کسی نہ کسی معصوم کو درندگی کا نشانہ بنانے والے کیا تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں،قتل و غارت،لوٹ مار، بے ایمانی، ملاوٹ، تول میں کمی بیشی، دھوکہ دہی ار افرا تفری کیوں ہے؟ کیوں استادوں کا احترام دلوں سے ختم ہوتا جا رہا ہے؟ کیوں ہم اب اپنے والدین کی عزت نہیں کرتے ؟ کیوں ایک بیٹا اپنی ہی ماں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کا گوشت خود بھی کھا رہا ہے اور اپنے کتے کو بھی کھلا رہاہے؟ کیا یہ سب تعلیم کی کمی ہے؟
اصل بات تو یہ ہے ہم فطرت سے دور ہوتے جارہے ہیں اسی لیے ہم اتنا علم حاصل کر کے بھی جانور کے جانور ہی ہیں۔ہم نے اصل علم کو پس پشت ڈال رکھا ہے یا طاقوں میں سجا رکھا ہے اور عمل ہمارا ہمارے علم کے منافی ہے۔ ہم علم کو اپنے برے عمل سے بچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اسے ختم کرنے کے لیے نہیں۔خالق کائنات نے تمام انسانوں کو ایک جیسا پیدا کیا اور کسی کو کسی پرفضیلت نہیں دی مگر تقوی ، پرہیز گاری ہی وہ واحد معیار ہے جس سے کسی کے درجات بلند ہوتے ہیں ۔ ہمیں اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہےاور اس کے لیے شریعت ہی بہترین راستہ ہے ۔اپنے بچوں کو اصل اسلام کی تعلیم دیں ، انہیں دنیا داروں کی پیروی پر لگانے سے بہتر ہے کہ انہیں اس عارضی زندگی میں خود کو مالک کائنات کے احکامات کا پابند ہونا سکھائیں، دنیا کی سختیوں کو برداشت کرنا سکھائیں کہ اصل کامیابی اسی میں ہے۔
مصنفہ معاشیات میں ماسٹرز ہیں اور ملکی معیشت کے ساتھ معاشرہ و ثقافت پہ لکھنا پسند کرتی ہیں۔