کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان ہارتا نہیں ہے بلکہ ہارجانے کا خوف اسے ہارنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جیسے کسی امتحان میں ناکام ہونا بری بات نہیں مگر ناکام ہونے کے بعد کوشش چھوڑ دینا اصل میں ناکامی ہے اور جو کوشش کرتے رہتے ہیں وہ ضرور جیت جاتے ہیں۔آج کل پوری دنیا کے انسان ایک وباء کورونا کے عتاب کا شکار ہیں اور ہر روزبڑھتی اموات سے جہاں انسانوں میں خوف اور ہراس پھیل رہا ہے وہاں مایوسی بھی گھر کرتی جا رہی ہے۔ویکسین آ جانے کے باوجود بھی ایک مایوسی والی فضا قائم ہے کہ آیا ویکسین کارآمد بھی ہے کہ نہیں کیونکہ ویکسین لگوانے کے باوجود احتیاط کرنی ضروری ہے یعنی فاصلہ رکھیں اور ماسک ضرور لگا کر رکھیں۔ پہلے موبائل فون نے انسان کو انسان سے دور کر دیااور دور رہ کر بھی قریب ہونے کا دعوہ کیا اب اس کورونا کی وجہ سے اور دوری بڑھتی جا رہی ہےحتی کہ خونی رشتے ایکدوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون دیا جا رہا ہے کہ آن لائن کلاسیں ہونگی مگر کیا اس سے ان بچوں میں موبائل فون کی عادت بھی پروان نہیں چڑھے گی اب ہر گھر میں لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر نہیں اگر ہے تو انٹر نیٹ کی سہولت نہیں مگر موبائل تو یہ دونوں چیزیں ایک ہی جگہ مہیا کر دیتا ہے اور شاید ہی کوئی ایسا ہو کہ جس کے گھر میں کسی کے پاس موبائل نہ ہو۔
ویسے سوچنے کی بات ہے کہ ہم جو اپنے آپ کو بڑے فخر سے مسلمان کہتے ہیں تو کیا موت کا ایک وقت معین ہے اس بات پر ہمار ا ایمان نہیں؟کیا ہم نہیں جانتے کہ موت اپنے وقت سے نہ پہلے آ سکتی ہےاور نہ بعد میں بلکہ وہ تو اپنے شکار کے ساتھ سائے کی طرح لگی رہتی ہے اور اپنے وقت کا انتظار کرتی ہے تو پھر خوف کس بات کا ؟ موت کا؟اگر وباء ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے تو غیر مسلم تو مسلمانوں سے مسجدوں میں دعائیں مانگنے کا کہ رہے ہیں اور ہم مسلمان اپنی مسجدوں کو بند کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ہم مسلمان کہیں اور کیوں بھاگ رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ مصیبت میں ہمیں کیا حکم دیا گیا ہے۔کیا ہمیں نہیں بتایا گیا کہ کوئی بھی مصیبت آتی ہے تو اپنے ہی گناہوں کی وجہ سے آتی ہے اور وہ سارے جہاں کا رب اس مصیبت کے بدلے ہمارے گناہ بھی معاف کر دیتا ہے۔ کیا توبہ کا راستہ ہمیں معلوم نہیں؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ اس مصیبت سے کون چھٹکارا دے سکتا ہے؟ کیا ہم نے قرآن کو پڑھا اس مصیبت کی گھڑی میں ؟ کیا ہم نے اپنی نمازوں کی حفاظت کی؟ مگر ہم نام کے مسلمان ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی ہمیں جنت میں لے جانے کے لیے کافی ہے کیونکہ ہم ایک مسلمان کے گھر پیدا ہوگئے اور کبھی کبھی کوئی مسلمانوں والا کام کر کے ہم اسلام پر احسان بھی کر ہی دیتے ہیں۔ بس کیا یہی کافی ہے؟
آج ہمیں اس گوالے جیسا یقین چاہیے جسے ہم کہیں گم کر چکے کہ جس نے کسی مسجد کے امام سے یہ سنا کہ اگر اپنے رب پر بھروسہ ہو تو دریا بھی تمہیں راستہ دے دے گا۔ اب وہ گوالا ہر روز دریا پار دودھ دینے جاتا تھا اور کشتی کا انتظار کرتے کرتے اکثر اس کا دودھ خراب ہوجاتا تو اس دن کے بعد اس نے کشتی کا انتظار کرنے کی بجائے کہا بسم اللہ اور دریا میں قدم بڑھا دیے، اس طرح وہ روز ہی دریا پار کرنے لگا تو اس کی مشہوری ہو گئی اور اسی امام مسجد نے ایک دن کشتی کا انتظار کرتے ہوئے اس گوالے کو دیکھا کہ آیا بسم اللہ پڑھی اور دریا پار کرگیا تو امام صاحب کو بھی جوش آیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا میں بھی پیدل ہی دریا عبور کرونگا مگر ایک کپڑا میری کمر کے ساتھ باندھ دو اگر میں ڈوبنے لگوں تو کھینچ لینا اور جناب دریا برد ہوئے ۔ یقین ہو تو اگر مگر نہیں ہوتا،بس یقین ہوتا ہےکہ وہ مالک الملک ہے نا سنبھالنے کے لیے، ایک اللہ ہے نا ہر مصیبت سے نجات دلانے کے لیے، تو کیوں نا اس سے اپنے گناہوں پر توبہ کر لیں ، کیوں نا استغفار کریں اور آئیندہ کے لیے اس کے تابعدار ہو جائیں۔کیوں نا مل کر دعا کے لیے ہاتھ بلند کریں تاکہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہوں۔آج ہمیں حضرت اقبال کے اس شعر کو عملی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے کہ:
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
مصنفہ معاشیات میں ماسٹرز ہیں اور ملکی معیشت کے ساتھ معاشرہ و ثقافت پہ لکھنا پسند کرتی ہیں۔