آج کی میری اس تحریر کا مقصد یوم آزادی پر ہماری ذمہ داریوں کی نشان دہی کرنا ہے۔آزادی ایک نعمت ہے اس کی قدر ان کو ہی ہوتی ہے جنھوں نے کچھ کھویا ہوتا ہے اس کے لیے یا جن کے پاس یہ نعمت نہی ہوتی۔ہر سال 14 اگست کو پوری قوم یوم آزادی پاکستان بھر پور جوش و جذبے کے ساتھ مناتی ہے بلاشبہ قوموں کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیئے بے شمار قربانیاں دینی پڑتی ہیں، ہمارے وطن کی آزادی شہداء کے خون کی مرہون منت ہے اور یہ سچ ہے کہ شہداء ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں اور ان کی قربانیاں ہمارے اوپر ان کا قرض ہے۔آزادی کے لیے ہمارے اجداد و بزرگوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر سو سبز پرچموں کی بہار ہے۔ہر کوئی اپنی استطاعت و توفیقات کے مطابق آزادی کا جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ گھروں، دفتروں اور گاڑیوں کو جھنڈوں اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا جارہا ہے۔ہر طرف روشنیوں کا سماں ہے ۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے تجزیے، کالم نویسوں کے کالم بہت عجیب اور حیران کن انداز میں بات کرتے ہیں 14 اگست کی اہمیت اور اسکی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کے لیے سازشیں کرتے رہتے ہیں اور کچھ حضرات بیرون ِ ملک سے خرچہ لے کر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں انھیں غیرت کھانی چاہیں اور انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ 14 اگست صرف ایک دن نہیں بلکہ ایک خاص تہوار ہے جس دن پاکستان معرض وجود میں آیا ۔یوم آزادی بلاشبہ قوموں کی تاریخ میں اہمیت کا حامل دن ہوتا ہے۔ اس دن کو باشعور قومیں یوم عہد کے طور پر مناتی ہیں۔ اپنی شناخت اور حقوق ملی جوش و جذبے کے ساتھ پہچاننے کا یوم عہد۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں جشن آزادی ایک عجیب ڈھنگ سے منانے کی ریت پڑتی جارہی ہے۔ رنگ برنگے کپڑے پہنے جائیں گے، سینوں پر بڑے بیج لگائے جائیں گے، سر اور چہروں کو رنگا جائے گا، موٹر سائیکلوں سے سائلینسر اتار کر سارے شہر کا سکون غارت کیا جائے گا، ٹیلی ویژن پر دن بھر نشریات چلیں گی جن میں سارا دن ملی نغمے چلیں گے۔
پھر یوں چودہ اگست کا دن گزر جائے گا۔ پھر جھنڈے چھتوں سے اتار دئیے جائیں گے، جھنڈیاں ہواؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جائیں گی۔ جذبات ٹھنڈے ہوجائیں گے ۔ اگر ون ویلنگ، لاؤڈ میوزک، ہلڑ بازی اور جشن کے نام پر سڑکیں بلاک کرنا ہی ہمارایوم عہد ہے تو ہمیں واقعی سوچنے کی ضرورت ہے۔جشن آزادی اور دیگر تقریبات پر قومی پرچم اور جھنڈیوں کے احترام کے سلسلے میں چند احتیاطی تدابیر،جن پر عمل کرنے سے جہاں قومی پرچم کے وقار و احترام اور اسکی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگا، وہاں ملک اور قوم بھی سر بلند و شاداں ہوگی۔تاریخی اعتبار سے پا کستانی قوم کی وابستگی اور بنیادی نقوش کا تعلق اس پرچم سے ہے۔جو 30دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں اس موقعہ پر لہرایا گیا تھا۔ اس دن وہاں برصغیر کی مختلف تنطیموں کے قائدین کاایک نمائندہ اجتماع ہواتھا۔ ڈھاکہ میں جو پرچم استعمال کیا گیا، اسکا رنگ سبز اور درمیان میں ستارہ وہلال تھا۔ قیام پاکستان سے قبل پاکستان کی نامزدنمائندہ وآئین ساز اسمبلی کے اجلاس منعقدہ 11 اگست 1947 ء، کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ خان لیاقت علی خان نے قومی پرچم باضابطہ طور پر منظوری کیلئے پیش کرتے ہوئے فرمایا، جناب والا۔۔ یہ کسی ایک پارٹی یا طبقے کا پرچم نہیں،یہ پاکستانی قوم کا پرچم ہے۔کسی بھی قوم کا پرچم محض ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہوتا۔اس کی خصوصیت اس کے کپڑے میں نہیں بلکہ ان اصولوں پر ہوتی ہے،جن کا یہ حامل ہے۔ میں بلا خوف کہہ سکتا ہوں کہ،پاکستانی پرچم اپنے وفاداروں اور اطاعت گزاروں کی آزادی،خودمختاری اور مساوات کا ہمیشہ پاسبان رہیگا۔یہ پرچم ہر پاکستانی شہری کے جائز حقوق کا تاقیامت تحفظ کرے گا۔ ان شاء اللہ۔پاکستانی پرچم کا ڈیزائن امیر الدین قدوائی نے تیار کیا تھا۔ جس کی منظوری قائد اعظم محمد علی جناح نے دی تھی۔جبکہ بابائے قوم کے حکم پر اس کی سلائی کا اعز از ماسٹر الطاف حسین کو حاصل ہوا۔ جنہیں قائد اعظم اور دیگر اکابرین امیرالدین قدوائی اور ماسٹر الطاف حسین تحریک پاکستان کےکپڑے، سوٹ اور شیروانی وغیرہ سینے اور بابائے قوم پر قاتلانہ حملے کے بعد ان کا ذاتی محافظ ہونے کا شرف پہلے ہی حاصل تھا۔یاد رکھئے۔پرچم کا 25 فیصد حصہ سفید رنگ اقلیتیوں، جبکہ75 فیصدحصہ سبز رنگ مسلم اکثریت کو ظاہر کرتا ہے۔سبز رنگ کے درمیان میں چاند، ترقی کا مظہراور پنچ گوشہ ستارہ روشنی اور علم کی نمائندگی کرتا ہے۔قومی ترانے میں اسے پرچم ستارہ و ہلال کہا گیا ہے۔ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا ہے کہ یہ آزادی و خوشی اور یہ جشن و بہار میں ایک یا دو انگلی کٹا کر اور ایک دو سال کے احتجاج کے نتیجہ میں حاصل نہیں ہوئی ہے۔بلکہ اس کے لئے ہمارے اسلاف نے اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کیا ہے اور مسلسل 90 سال تک عظیم قربانیاں دی ہیں تب کہیں جاکے ہمیں یہ آزادی کی نعمت حاصل ہوئی ہے۔
جشنِ آزادی منانے پر اعتراض نہیں مگر اسکے ساتھ ساتھ ان باتوں پر بھی توجہ دینی ہے جو آج کئی سال گزرنے کے باوجود بھی ہماری جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ہمیں ان وجوہات کے بارے میں سوچنا ہے جن کی وجہ سے آج تک ہم آزادی کی حقیقی روح کو نہیں پہچان پائے۔ اس آزادی کے دن کو صرف تفریح یا تہوار کے طور پر منانے والے وہ لوگ ہیں جنہیں آزادی کی قیمت کا احساس نہیں اور نہ انہوں نے کبھی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح یہ مملکت خداداد وجود میں آئی تھی کہ جس پر دشمن آج سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی دانت گاڑے بیٹھا ہے۔ آج سے ستر پچھتر سال پہلے ہمارا یہ عظیم ملک جو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اور جس کو قدرت نے ہر طرح سے مالا مال کیا تھا سفید انگریزوں کے قبضے میں تھا ۔ یعنی ہم اس وقت غلام ہو گئے تھے ۔ اور انگریز ہم پر حاکم ہو گیا تھا ۔ آپ جانتے ہیں کہ غلامی کتنی بدتر چیز ہے ۔ غلام آدمی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا ۔ اسی لئے غلامی کو لعنت کہا جاتا ہے ۔ ناپاک انگریز صرف ہم پر حکومت ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ پوری مکاری اور چالاکی کے ساتھ یہاں کی قیمتی دولت کو سات سمندر پار بھیج رہے تھے ۔ اور اس ملک کو کنگال کر رہے تھے ۔یہ آزادی جن قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی تھی ان دل دہلادینے والی داستانوں کو آج شاید ہم میں سے بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ آگ اور خون کے دریا کو عبور کرکے جب ہم نے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ ہم اس عہد کو پورا نہ کرسکے جسکی خاطر ہماری ہزاروں ماؤں، بہنوں، بھائیوں اور بیٹوں نے اپنی حیات تک وار دی تھی۔ہماری آزادی تب تک ادھوری ہے جب تک ہم پاکستان میں سماجی مساوات، اسلامی اخوت، معاشی عدل اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بنا لیتے۔
یوم آزادی کا دن درحقیقت ہمارے عہدوپیمان کی یاددہانی کادن ہے مگر افسوس کہ ہم یہ عہد بھول گئے انسان کی سرشت میں ہی بھول جانا ہے( جس طرح ہم عہد الست کر کے بھول چکے ہیں) عہد کو پورا نہ کرنا بھاری خمیازے کا سبب بن سکتا ہے جس طرح اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا اور اس کے بدلے انھیں ایک زمین عطا کی تھی مگرانھوں نے اللہ کی نافرمانی کی جس کی پاداش میں اللہ سبحان وتعالی نے چالیس سال تک صحرائےسینہ میں بھٹکائے رکھا اسی طرح ہم نے بھی اللہ سے یہ عہد کیا تھا اور اللہ سبحان و تعالی نے اپنا عہد مکمل کیا اور کس قدر خوبصورت اور ہر لحاظ سے بہترین خطہ دیا جن لوگوں نے اسے قربانیاں دے کر حاصل کیا وہ اس کی قدروقیمت جانتے ہیں یا وہ طبقہ جنہوں نے انھیں قربانیاں دیتے دیکھا اس کے بعد سے اس جنریشن کاوہ دور شروع ہوتا ہے جسکو آزادی پلیٹ میں سجی ہوئی ملی تبھی انھیں جشن آزادی کی سیلیبریشن محض ناچ گانے میں ہی نظر آتی ہے۔جشن ازادی کے موقعہ پر بچے شوق سے گھروں پر قومی پرچم لہراتے اور پاکستانی جھنڈیوں سے سجاتے ہیں۔ تاہم جب تقریبات ختم ہو جائیں تواس پرچم کو لپیٹ کر احتیاط سے کہیں سنبھال کر رکھ لیا جائے،اور اسی طرح جھنڈیاں بھی اتار کر محفوظ کر لی جائیں۔گلیوں اور بازاروں میں بھی عوام کا یہی عمل ہونا چاہئے،غیر ذمہ داری کی وجہ سے عام طور پر جھنڈیاں پیروں تلے روندھی جاتی ہیں،جو قومی توہین کے مترادف ہیں۔بہتر ہے کہ جشن کی تقریبات ختم ہوتے ہی انہیں بھی اتار لیا جائے۔قومی سبز رنگ کے علاوہ اسے کسی اور رنگ میں نا چھاپا جائے۔اس کے حقیقی ڈیزائن اور سائزکو بھی مدنظر رکھا جائے۔عام طور پر قومی پرچم یا جھنڈیوں پر لوگ اپنے ہیروز کی تصاویر چھاپ دیتے ہیں، یہ امر قومی پرچم کی توہین کے زمرے میں اتا ہے،نیزقومی پرچم یا جھنڈیوں پرکچھ اور لکھا یا چھاپا نا جائے۔شہری انتظامیہ بینرز اور جھنڈیوں کے میعار، تحفظ اور تقدس کی ذمہ دار ہے۔لیکن خصوصی عملے کے ذریعہ یہ کام فوری طور پر ہونا چاہئیے تاکہ اس دوران بارش، آندھی یا تیز ہوا سے ٹوٹ کر سڑک پر نا گریں۔
جشن آزادی کی خوشیاں مناتے وقت ہمیں آزادی سے محروم مسلمانوں اور مظلوموں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئیے کیونکہ آزادی کی نعمت سے محروم کشمیری اور فلسطینی اپنے لہو سے آزادی کی جدوجہد کی شمع روشن کیے بیٹھے ہیں۔اس سال جشن آزادی کورونا وائرس کی وبا کے دوران آئی ہے گو کہ اب اس وائرس کا زور کم ہوگیا ہے مگر جشن آزادی کی تقریبات مناتے وقت احتیاط کرنا ضروری ہے۔جشن آزادی پاکستان کی تیاری اور اہتمام ہر سال بہت منفرد اور خوبصورت انداز میں کیا جاتا ہے گذشتہ سال بھی یوم آزادی پاکستان کو یوم یکجہتی کشمیر سے منسوب کیا گیا اور اس سال بھی عوام پاکستانی پرچم کے ساتھ کشمیری پرچم کی خریداری کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔محض قائداعظم کے مزار پر پھولوں کی چادریں چڑھانے، یا بڑی بڑی مورتوں‘‘ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اخباری بیانات دینے سے آزادی وطن کا حقیقی مفہوم ہرگز پورا نہیں ہوگا۔14 اگست ایسی منائیں کہ 15 اگست کی تیاری کی ضرورت ہی نہ پڑے۔جھنڈا کا احترام لازم ہے۔ ہر پاکستانی پاکستان کے جھنڈے کو سلام کرتا ہے.. پاک فوج اور کشمیر کا ہر مجاہد / ہر سپاہی زندگی میں جھنڈے گاڑنے کی کوشش کرتا ہے اور شہید ہونے کے بعد جھنڈے میں دفن ہوتا ہے…. جب بھارت میں جھنڈے لہرائے جاتے ہیں تو اس دن پاکستان میں ہر گلی محلے میں پاکستان کے جھنڈے پاوں تلے روندے جاتے ہیں.. جبکہ ہونا ایسا چاہیے کہ 14 اگست کو لگائے گئے جھنڈے کی عزت و تقریم میں 15 اگست یا کبھی بھی فرق نہ آئے۔ جشنِ آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ ہر چیز سے ہم آزاد ہو گئے جبکہ پاکستانی جھنڈے کی عزت و حفاظت ہم سب کا ذمہ ہے۔کچھ لوگ نئی نسل کو کس بحث مباحثے میں ڈال رہے ہیں ؟؟ اس سے کیا حاصل ۔۔ ملک اور آزادی کی قدر غلام ملکوں سے پوچھو ، کشمیریوں سے فلصطینیوں ، اعراقیوں سے پوچھو ۔۔پاکستانیوں آپ کی نگاہ اس طرف کم گئی ہے دنیا کی تاریخ میں اتنی قلیل مدت میں یہ وہ پاکستان ہے جس نے 63 سال کی عمر میں 8 جنگیں لڑیں تقسیم کے وقت1948 کشمیر کی جنگ، 1965 میں ہندستان کی مسلط کردہ جنگ، 1971 میں ہندوستان کی مسلط کردہ جنگ، 1999 میں کارگل کی جنگ، دنیا کی سپر پاور روس سے افغانستان میں جنگ، دنیاکی سب سے بڑی 50 لاکھ مہاجرت کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ موجودہ سپر پاور امریکہ سے جنگ اس کے باوجود پاکستانیوں پاکستان زندہ بلکہ ایٹمی قوت بھی ہے. یہ وہ پاکستان ہے جس کے خلاف اسرائیل، انڈیا اور امریکہ نے اتحاد کرلیا تھالیکن اس وقت تک اللہ کے حکم سے ناکام ہیں یہ وہ پاکستان ہے جس نے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے چھ ایف سولہ جہاز گرائے تھے۔پا کستان جیسی فوج کسی ملک کے پاس نہیں ہے۔پا کستان جیسی عوام کسی ملک کے پاس نہی ہے۔بس چند ایک دشمن ممالک کے ایجنٹ جو پا کستان کے خلاف بکتے ہیں۔کبھی سندھ تحریک شروع کرتے ہیں اپنے آقاوں کو خوش کرنے کے لیے تو کبھی بلوچستان میں ٹی ٹی پی آ جاتی ہے ۔کبھی انڈیا کلبھوشن لانچ کرتا ہے ۔تو کبھی امریکہ شکیل آفریدی لانچ کرتا ہے۔کبھی خیبر پختون خواہ میں پی ٹی ایم آ جاتی ہے ۔اس کے نمائندے پاک فوج کی چوکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔پاک فوج کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہیں۔دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔پاکستان کے عوام کو چاہیے کہ پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔جس ملک کی فوج نہیں ہوتی وہ کبھی کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ہم سب کو آج پاکستان کی ترقی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اور ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔ نوجوان نسل کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آج ہم آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں تو ان شہیدوں کی وجہ سے جنہوں نے اپنا کل ہمارے آج کے لئے قربان کیا۔ پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہداء کا خون شامل ہے۔ ایک آزاد مملکت کے لئے مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ تاریخ گواہ ہے بھارت سے آنے والی ٹرین مسلمانوں کی لاشوں سے بھری ہوئی لاہور پہنچی تو بھی یہاں کے مسلمانوں نے پاکستان میں رہنے والے ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ہندوستان میں آج بھی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر بھی ہندوستان کے مظالم کی داستانوں میں سے ایک داستان ہے۔پاکستان کی نوجوان نسل کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ مستقبل میں اس عظیم مملکت کی باگ ڈور انہوں نے سنبھالنی ہے۔ انہوں نے خود کو اقبال کے شاہین ثابت کرنا ہے۔انہیں قائد کے ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کے درس کو ہر لمحہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی شور شرابے نہیں سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم نے اپنی آزادی کی حفاظت کس طرح کرنی ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر کس طرح گامزن کرنا ہے۔ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ ہم ہجوم نہیں ایک باشعور اور عظیم قوم ہیں‘ جسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ آجکل 14اگست 1947کے دن سے متعلق ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں اس سے اندازہ ہوا کہ ہمارے پاکستانی نوجوان اس عظیم الیشان د ن کی اہمیت سے اچھی طرح باخبر ہیں اور اس پر کام بھی کر رہے ہیں۔حال ہی پاکستانی نوجوانوں نے سوشل میڈیا پرکئی ویڈیو وائرل کی ہیں جن کا مقصد محض یہ ہے کہ14 اگست کے دن جھنڈیاں لگانے کے بجائے پودے لگائے جائیں۔اگر اس پر عمل ہو گیا تو پاکستانی پرچم بےحرمتی سے محفوظ ہو جائے گا۔آزادی کے دن کو دھوم دھام سے منانا پاکستانی قوم کا حق ہے مگر اس حق کا استعمال پر وقار انداز میں ہو نا چاہیے جو ہماری ذمہ داری ہے ہمیں اپنے قومی پرچم کا احترام مقدم ہونا چاہیے کیونکہ دنیا بھر میں ہماری پہچان ،شان،آن اسی پرچم سے وابستہ ہے ہمیں اپنی نئی نسل کو اس سلسلے میں مزید آگاہی دینی ہو گی۔ پاکستان زندہ باد
نوٹ: پاک اردو رائٹر کا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں
راجہ منیب مخلتف اخبارات میں کالم ، آرٹیکل اور بلاگ تحریر کرتے ہیں ۔ اسکے علاوہ وہ ایک تجزیہ کار ہیں ۔