صاحبو وہ دن تو ہوا ہوئے جب عقل مند سٹوڈنٹ ایسی مائکرو سکوپک تحریر میں اپنے فٹے، کف کے اندر، جسم پر اور کاغذ کی ننھی منی پرچی پر اہم سوالات کے جوابات لکھ کر لے جاتے تھے، جسے دیکھ کر چاول کے دانے پر لکھنے والے ماہر خطاط دانتوں میں انگلیاں دابیں۔ پرچہ حل کرنے والے ایسے نسخے کو بوٹی کہا جاتا تھا۔ یا پھر بھائی چارہ چلتا تھا اور دائیں بائیں آگے پیچھے سے غیبی مدد کے ذریعے جواب مل جاتا تھا۔ اب تو ٹیکنالوجی کا دور ہے، اب کہاں ملیں گے وہ طلبہ جو خون جگر جلا کر بوٹیاں تیار کرتے تھے۔ اب گوگل نے ان خلیفوں کے مرشد کا درجہ پایا ہے۔
ملک فرنگستان کے پرچہ نویس بیان کرتے ہیں کہ نئے زمانے کا ایک استاد ایسے نقلچو طلبہ کے ہاتھوں بہت پریشان ہوا جو سوالات کے جوابات گوگل سے پوچھ کر لکھ دیتے تھے۔ طلبہ کو یقین تھا کہ ان کے تمام اساتذہ پرانے زمانے کی مخلوق ہیں اور انہیں اب تک انٹرنیٹ اور گوگل وغیرہ جیسی چیزوں کی خبر نہیں پہنچی۔ سو وہ اسائنمنٹ اور امتحان کا حل لکھنے کے لیے مرشد گوگل سے رجوع کرتے اور من کی مراد پاتے۔
ایک استاد نے نوٹ کیا کہ امتحان کے دوران روٹین کے ایک دو طلبہ کی بجائے آدھی کلاس کو اچانک شدید سوسو آنے لگا ہے۔ طلبہ بے چین اور پریشان ہو کر باتھ روم جاتے اور شاداں و فرحاں واپس پلٹتے۔ پہلے تو اس نے سوچا ہو گا کہ شاید ان بچوں کو کوئی طبی مسئلہ ہے، لیکن جب ریزلٹ میں وہی آدھی کلاس جینئس نکلی تو اسے شبہ ہوا کہ یہ طبی نہیں طبعی مسئلہ ہے۔ پھر اس نے ایک چکر چلایا اور مکر و حیلے کے جال میں چودہ شاگردوں کو پھانس لیا۔
اس استاد نے ایک ایسا سوال تیار کیا جو اس نے پڑھایا ہی نہیں تھا اور جس کا جواب دینا ناممکن تھا۔ اپنے ایک اسسٹنٹ کے ذریعے اس نے طلبہ کے سوال جواب کی ایک مقبول ویب سائٹ پر وہ سوال ڈلوا دیا۔ اس کی عبارت ایسی رکھی کہ گوگل پر ٹھک سے سیدھا وہی سامنے آتا۔ پھر اس نے ایک دوسرے اکاؤنٹ سے لاگن ہو کر اس سوال کا ایک ایسا جواب پوسٹ کر دیا جو پہلی نظر میں درست لگتا تھا۔ اب پھندا تیار تھا۔
اگلے ماہ کے امتحانی پرچے میں وہ ایک سوال کے پارٹ ٹو کے طور پر شامل کر دیا گیا۔ اس کے سو میں سے پانچ نمبر رکھے گئے۔ اب جو کتابی کیڑے قسم کے سٹوڈنٹ تھے انہوں نے پارٹ ون حل کیا، پارٹ ٹو پر سر کھپایا، مشکل پایا اور پانچ نمبروں پر فاتحہ پڑھ کر آگے نکل گئے۔
گوگل کو مرشد ماننے والوں کو کوئی سوال مشکل نہیں لگتا تھا۔ وہ مشکل میں پھنسے تو من کی مراد پانے کو استاد سے اجازت لے کر باتھ روم گئے اور گوگل بابا سے اس سوال کا جواب لے کر پلٹے۔ انہوں نے جواب لکھا اور سوال کو سو فیصد حل کر دیا۔
چند دن بعد تمام طلبہ کو استاد کی ایمیل ملی۔ اس نے تمام طلبہ کو ان کے نمبر بتائے تھے۔ طلبہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جنہوں نے سوال کا پارٹ ٹو چھوڑا تھا، انہیں تو سوال کے پورے نمبر ملے، لیکن جن طلبہ نے وہ سوال گوگل سے دیکھ کر حل کیا تھا، انہیں اس پورے پرچے میں ایک بڑا سا انڈا ملا۔ استاد نے اپنی ایمیل میں نقل کرنے والوں کو پکڑنے کی خاطر پھیلائے اپنے اس جال کے بارے میں بتایا، اور 99 میں سے 14 طلبہ نے اسے پڑھ کر اپنا سر پیٹا۔
ظالم استاد نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ دیگر تمام اساتذہ کو بھی ان 14 طلبہ کا نام فراہم کیا۔ اب فرنگی پرچہ نویسوں نے اس کے بعد کا احوال نہیں لکھا۔ غالب امکان ہے کہ ان چودہ طلبہ کا حقہ پانی بند کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، لیکن ان کا باتھ روم ضرور بند کر دیا گیا ہو گا۔ وہ حقیقی ضرورت پیش آنے پر بھی اب کمرہ امتحان میں ڈانس کر کے اپنے اعصاب وغیرہ پر قابو پانے کی کوشش کیا کرتے ہوں گے، کہ دوبارہ کچھ خطا نہ ہو جائے اور ان کی بھد اڑے۔

عدنان خان کاکڑ
عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.