تمام ممالیہ جانوروں کا نرخرا گلے میں اوپر کی طرف ہوتا ہے جبکہ صرف انسانوں کا نرخرا گلے میں نیچے کی طرف ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے باقی تمام ممالیہ بیک وقت کھا بھی سکتے ہیں اور سانس بھی لے سکتے ہیں، لیکن انسان وہ واحد ممالیہ ہے جو اپنی خوراک اپنی ناک کی نالی میں پھنسا کر دم گھٹنے سے راہی ملک عدم ہو سکتا ہے۔
انسان بھی پہلے نارمل ممالیہ ہوا کرتے تھے۔ پھر کوئی اٹھارہ لاکھ برس قبل ہومو اریکٹس کا نرخرا گلے میں نیچے کی طرف منتقل ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب انسان پیچیدہ قسم کی آوازیں نکالنے پر تو قادر ہو گیا، لیکن ساتھ ہی کھاتے وقت پھندا لگنے کا عارضہ بھی اسے لاحق ہونے لگا۔ ابھی بھی انسانی بچے کا نرخرا گردن میں اونچے مقام پر ہوتا ہے۔ اٹھارہ سے چوبیس ماہ کی عمر کے دوران نرخرا گردن میں نیچے اترنا شروع کرتا ہے اور بالآخر گردن کے چوتھے سے ساتویں مہرے کے درمیان فکس ہو جاتا ہے۔ اس سے بچے کے سانس لینے، بولنے اور نگلنے کے نظام میں بڑی تبدیلی آ جاتی ہے۔
کوئی چار لاکھ برس قبل ہومو ہائیڈل برگینسس کے گلے میں نرخرے سے کچھ اوپر اور زبان کی جڑ میں نرخرے کی ہڈی، یو کی شکل والی ”ہائی آئیڈ بون“ پیدا ہو گئی۔ تین لاکھ برس قبل کھوپڑی کی جڑ کی کی ہڈیاں جدید شکل میں تشکیل پائیں تو انسان میں پیچیدہ آوازیں نکالنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ لیکن انسان ابھی تک اپنی اس سپر پاور سے لاعلم تھا۔ پھر سست آدمی کی سستی کی وجہ سے پیچیدہ انسانی زبان ایجاد ہو گئی اور وہ دیگر بندروں کی طرح خوخیانے کی بجائے بات چیت کرنے لگا۔
اب بعض نکتہ چین معترض ہوں گے کہ گزشتہ اقساط میں سستو اور اس کے رشتے دار آپس میں پیچیدہ قسم کی بات چیت کیسے کر رہے تھے۔ ابھی سائنس اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ زبان کی ایجاد سے پہلے انسان غوں غاں کر کے اور اشاروں کے ذریعے بات چیت کیا کرتا تھا، مگر ہماری رائے یہ ہے کہ ممکن ہے کہ وہ ٹیلی پیتھی یا مخفی روحانی صلاحیتیں استعمال کر کے وہ سارے مکالمے بولتا ہو جو ہم نے گزشتہ اقساط میں درج کیے۔ بہرحال یہ معاملہ ماہرین پر چھوڑ کر ہم اس بات کی طرف واپس آتے ہیں کہ سست آدمی نے زبان کیوں اور کیسے ایجاد کی۔
ہوا یوں کہ آج سے کوئی تین لاکھ برس قبل سستو کی اماں نے اسے قریبی جنگل سے روزانہ پھل اکٹھا کرنے کی ذمہ داری تفویض کر دی۔ ساتھ کوئی نصف درجن بچے بھی اس کے سپرد کر دیے کہ سارا سیزن یہ درختوں سے روز تازہ پھل توڑ لائیں گے۔ اب سستو اپنے جھونپڑے سے بچے لے کر نکلا اور سب سے پہلے سیب کے درختوں کی طرف چلا۔ اس نے ایک سیب توڑا اور بچوں کو اشارہ کیا کہ سیب توڑیں۔ بچوں نے تھوڑی ہی دیر میں بہت سے سیب توڑ لیے اور ٹیم کامیاب و کامران واپس پلٹی۔
اگلے دن سستو کو پھر پھل لانے تھے۔ سستی کے باعث اس کا درختوں تک جانے کا موڈ نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے پاس پڑا ایک سیب اٹھایا اور بچوں کو دکھا کر ایک انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا اور پھر اپنے پیروں کے پاس زمین کی طرف۔ بچے ہونقوں کی طرح سستو کی طرف دیکھتے رہے۔ سستو نے جھنجھلا کر کہا ”سے سیب“ ، پھر ہاتھ گھما کر نیچی پیروں کی طرف اشارہ کیا ”لا“ ۔ بچے پھر بھی ہونقوں کی طرح دیکھتے رہے۔ انہوں نے سیب کا لفظ بھی پہلی مرتبہ سنا تھا اور لا بھی۔ بہرحال وہ دلچسپی سے سستو کا یہ کرتب دیکھ رہے تھے۔
سستو تھک ہار کر انہیں سیب کے درخت کے پاس لے گیا اور ایک سیب کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا ”سیب“ ۔ پھر دوسرے اور تیسرے پھل کی طرف اشارہ کر کے بھی سیب کہا۔ بچوں نے اب اس کے پیچھے پیچھے یہ لفظ دہرانا شروع کر دیا۔
سستو نے ایک سیب کی طرف ہاتھ بڑھایا اور کہا ”توڑ“ اور درخت سے سیب توڑ لیا۔ پھر دو تین اور سیبوں کو توڑ کر یہی لفظ دہرایا۔ پھر توڑے ہوئے سیبوں کو ایک ایک کر کے اپنے پیر میں رکھتا گیا اور کہتا گیا ”لا“ ۔ بچے سدا کے نقال ہوتے ہیں، انہوں نے جلد ہی تینوں لفظ سیکھ لیے۔ اگلی صبح سستو جھونپڑے سے نکل کر باہر ایک درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھا اور اس نے بچوں کی ٹولی کو سیبوں کے جھنڈ کی طرف اشارہ کر کے کہا ”سیب! توڑ! لا!“ ۔ بچے اب یہ تین لفظ سمجھتے تھے۔ وہ بھاگے اور جلد ہی بہت سے سیب لا کر سستو کے پاس ڈھیر کر دیے۔
یوں سستو نے خود ہلے بغیر اپنے حصے کا کام دوسروں سے کروانے کا طریقہ دریافت کر لیا۔ رفتہ رفتہ اس نے دیگر پھلوں اور اہم چیزوں کے نام بھی رکھ دیے، اور بچوں کو لانے کے علاوہ پھینکنا، کھانا کھانا اور مار کھانا بھی سکھا دیا۔ آہستہ آہستہ اسم اور فعل کے اس ذخیرے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سستو کے قبیلے کے دیگر بڑوں نے دیکھا کہ وہ بچوں کو یوں دور سے آواز دے کر ریموٹ کنٹرول کر سکتے ہیں تو انہوں نے بھی جلد ہی یہ زبان سیکھ لی۔ اس طرح سستو کی ازلی کاہلی کی وجہ سے زبان ایجاد ہوئی۔ اب بابے خود ہلے بغیر دور سے ہی آواز دے کر چھوٹوں سے کام کروا لیتے۔
اب چوکیدار بھی خطرے کی نوعیت سے درست طور پر خبردار کرنے لگے۔ پہلے شیر زرافہ مگرمچھ کچھ بھی آتا تو ایک ہی طرح کی خوفزدہ سی چیخ مار کر خطرے سے خبردار کیا جاتا، اس سے نقصان یہ ہوتا کہ قبیلے والوں کو یہ علم نہیں ہو پاتا تھا کہ انہوں نے جان بچانے کے لیے بھاگ کر درخت پر چڑھنا ہے یا پانی میں کودنا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ خطرے کی چیخ سن کر شیر سے بچنے کے لیے پانی میں کودتے تو انہیں علم ہوتا کہ اصل میں تو پانی میں موجود مگرمچھ سے خبردار کیا جا رہا تھا یا انہیں زرافوں کے جھنڈ کے خطرے سے آگاہ کیا جا رہا ہوتا تو وہ بھاگ کر درخت پر چڑھ جاتے اور خود کو زرافوں کے روبرو پاتے اور ٹپ کر کے زمین پر گر کر ہڈی پسلی تڑوا بیٹھتے۔ زبان کی دریافت کے بعد ایسی غلط فہمیوں کی وجہ سے جان گنوانے کا امکان کم ہو گیا۔
زبان کی ترقی ہوتی گئی۔ سستو نے جلد ہی یہ بھی دریافت کر لیا کہ وہ اگر میٹھی میٹھی باتیں کرے تو سیب سے لے کر محبت تک ہر چیز آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ یہ دریافت شاعری کی تخلیق کا باعث ہوئی اور محبوبہ کے جسمانی اعضا میں سے پہلی تشبیہ بھی گالوں کو سیب سے دی گئی۔ دیگر اقسام کے پھل فروٹ بھی محبوب اور خصوصاً محبوبہ میں دریافت کرنے کا رواج اسی ابتدائی بول چال سے پڑا۔
زبان کی ایجاد اہم تھی۔ یووال نوح ہراری کہتا ہے کہ انسانوں کو دوسری مخلوقات پر برتری محض اسی وجہ سے حاصل ہے کہ وہ قصے کہانیاں گھڑ سکتا ہے اور اپنے خیالات کی ترسیل کر سکتا ہے۔ اگر سستو اپنی ازلی کاہلی کی وجہ سے زبان ایجاد نہ کرتا تو آج انسان بھی نہ صرف گوریلوں جیسی زندگی گزار رہے ہوتے بلکہ ان ہی کی طرح خوخیا کر بات چیت کرتے۔
ان قصے کہانیوں کے ذریعے تخلیقی انسانوں نے بہت سے توہمات ایجاد کیے اور دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ بڑے انسانی گروہ بنانے میں زبان کا کردار اہم رہا کیونکہ اس کے ذریعے گروہ اپنے مشترکہ اوہام اور رواج تشکیل دے کر ایک دوسرے سے جڑتا ہے اور مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے کام کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے کو اپنا ہنر سکھانے، نئے ہنر ایجاد کرنے اور علم کے فروغ میں ان قصے کہانیوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔

عدنان خان کاکڑ
عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.