جہلم کے نواح میں لڑی جانے والی مہیب جنگ کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ زنجیروں میں جکڑا ہوا شکست خوردہ راجہ اب فاتح کے دربار میں پیش کیا جانے والا تھا۔ زنجیروں کی کھنکھناہٹ سنائی دی اور پہریداروں کے جلو میں جھومتا ہوا مست راجہ فاتح کے شاہی خیمے میں لایا گیا۔ تھکا دینے والی جنگ نے ہینڈسم راجہ کے چہرے کو کمھلا دیا تھا۔ اس کے چہرے پر وہ تازگی دکھائی نہیں دے رہی تھی جس کے لیے وہ مشہور تھا۔ لیکن خون اور پسینے سے رچے ہوئے اس چہرے میں ابھی بھی ایک ایسے راجہ کی تمکنت موجود تھی جو کبھی شکست قبول نہیں کرتا۔
پانچ روز کی خونریز جنگ کے پہلے تین دن راجہ کی فوجوں نے فاتح کے لشکر کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ اس نے مارا کم تھا اور گھسیٹا زیادہ۔ ایسے ایسے بدمست ہاتھی اس کے لشکر میں شامل تھے جن کا جواب دینے سے فاتح کے لشکری قاصر تھے۔ فاتح کے کچھ لشکری جان بچانے کو میدان سے فرار ہو گئے تھے، کچھ ان ہاتھیوں کے پیروں تلے کچلے گئے اور کچھ گرفتار ہوئے۔ فاتح کے جو فوجی ان ہاتھوں کا مقابلہ کرنے کے لیے منظم انداز میں آگے بڑھتے انہیں راجہ کے تیر انداز اپنے تیروں کی باڑ پر رکھ لیتے۔ راجہ کے تیر اندازوں کے پاس بھاری کمانیں تھیں۔ وہ زمین پر ٹکا کر جب کوئی تیر چھوڑتے تو فاتح کے ساتھیوں کی کوئی ڈھال انہیں روک نہ پاتی اور ان کا دامن تار تار کر دیتی۔
جنگ کے چوتھے دن پہلے تیز بارش نے آ لیا۔ راجہ کے لشکریوں کی بھاری کمانیں کیچڑ کی وجہ سے ناکارہ ہو گئیں۔ راجہ نے اپنے ہاتھیوں کو حملہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ دیکھ کر فاتح نے اپنے خاص محافظ دستے کو یلغار کرنے کا حکم دیا جس کے نیزوں نے اپنا لوہا ساری دنیا سے منوایا ہوا تھا۔ وہ مل کر آگے بڑھے اور راجہ کے مہیب ہاتھیوں کے سامنے آئے۔ اب انہیں تیروں سے نجات مل گئی تھی تو انہوں نے تاک تاک کر ہاتھیوں کی سونڈوں میں اپنے لمبے نیزے چبھونے شروع کر دیے۔
ہاتھی گھبرا گئے۔ ان کے مہاوت ان پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ سامنے دریا تھا اور پیچھے بہت پیچھے ان ہاتھیوں کا گھر۔ وہ گھبرا کر واپس پلٹے اور اپنے ہی لشکر کو روندتے ہوئے اپنے گھر کی طرف واپس دوڑے۔ راجہ کا لشکر خود کو ان مہیب ہاتھیوں کے پیچھے محفوظ سمجھ رہا تھا۔ ہاتھی اب واپس پلٹے اور راجہ کے لشکر کو روندنے لگے تو بے اختیار راجہ کے منہ سے نکلا ”یہ ہاتھی نیوٹرل ہو گئے ہیں، جانور کہیں کے۔ لیکن ہم ہار نہیں مانیں گے۔ یلغار ہو“ ۔ راجہ نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا۔
اسے اپنی شکست سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ مگر اس نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے ہتھیار ڈالنے کا یا میدان چھوڑ کر بھاگنے کا مشورہ دیا مگر اس نے سب کی رائے ٹھکرا دی۔ ”میں فاتح کے لیے میدان خالی نہیں چھوڑوں گا۔“ اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
کچھ دیر میں اس کے لشکری تتر بتر ہو گئے۔ فاتح کے لشکر نے غلبہ پا لیا۔ راجہ ابھی بھی لڑنے کی کوشش کر رہا تھا مگر پھر فاتح کے چند سرداروں نے اس پر کمندیں ڈال کر اسے بے دست و پا کر دیا۔ یوں وہ اس حالت میں گرفتار ہوا کہ اس کے جسم پر 174 زخم تھے اور پورا بدن پسینے اور خون میں نہایا ہوا تھا۔
رات گئے اسے فاتح کے خیمے میں لے جایا گیا۔ فاتح اس کا حوصلہ دیکھ کر اس سے بہت متاثر تھا۔ اپنی روایت کے برخلاف اس نے سربلند راجہ سے پوچھا ”بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟“
زنجیروں میں جکڑے ہوئے راجہ نے باوقار انداز میں سربلند کیا اور پرتمکنت انداز میں کہا ”وہی سلوک جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں“ ۔
فاتح یہ سن کر دم بخود رہ گیا۔ ایک مرتبہ تو اسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا کہ ایک شکست خوردہ قیدی راجہ ایسی بات کہہ سکتا ہے۔ پھر اس نے اپنے دائیں ہاتھ کھڑے ہوئے سردار کو کہا ”رانا! اس پر اور اس کے سرداروں پر نیب کے تین درجن اور ایف آئی اے کے پانچ درجن کیس بنا دو۔ اور ساتھ اس کی چھاگل سے ساٹھ سیر پاؤڈر کی برآمدگی بھی ڈال دو۔ ہمارے پرچہ نویسوں نے بتایا ہے کہ راجہ کے راج میں بادشاہ یہی سلوک بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہی راجہ کی پرم پرا ہے“ ۔

عدنان خان کاکڑ
عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.