چار لاکھ برس قبل سستو اپنے قبیلے نینڈرتھال کے ساتھ یورپ کے ایک میدان میں شکار کی تلاش میں گھوم رہا تھا۔ نینڈرتھال نیزوں کے ذریعے بڑے جانوروں، حتیٰ کہ درندوں کا شکار کرنے میں طاق تھے۔ ان کا دماغ بھی موجودہ انسان کے دماغ سے بڑا تھا۔ یورپ کی سردی برداشت کرنے کی صلاحیت ان کی جینز میں پیدا ہو چکی تھی لیکن پھر بھی سخت سرد موسم میں وہ جانوروں کی کھال اوڑھ کر خود کو سردی سے بچانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ تو سستو بھی ایک ریچھ کی کھال اوڑھے اپنے قبیلے کے ساتھ چل رہا تھا۔
اب کبھی کھال ایک شانے سے ڈھلکتی تو سستو کو وہ ٹھیک کرنا پڑتی۔ کبھی سر سے اتر جاتی تو اسے سنبھالتا۔ تھوڑی دیر میں وہ دوسرے شانے سے ہٹ جاتی اور سرد ہوا اسے جما کر رکھ دیتی۔ باقی خیریت رہتی تو ریچھ کے بازو اور ٹانگیں جو اس نے اپنے سینے اور پیٹ پر باندھے تھے، وہ ڈھیلے پڑ جاتے۔ یعنی شکار کی بجائے سستو کو سردی سے بچنے کی فکر زیادہ تھی۔ وہ کھال کو درست کرنے رکتا تو چستو اور دیگر ساتھی اس پر خفا ہوتے۔ جھنجھلا کر اس نے اپنے سینے پر موجود ریچھ کی کھال کے دونوں بازوؤں کو ایک باریک اور لمبی سی بیل سے باندھ دیا۔ اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اب نہ صرف یہ کہ وہ کھلنا بند ہو گئے تھے بلکہ شانے سے بھی کھال ڈھلکنا رک گئی۔ سستو باقی قبیلے کے پیچھے پیچھے دھیرے دھیرے چلتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا ایسی کوئی ترکیب ہو سکتی ہے کہ باقی ساری کھال بھی اسی طرح بیل سے باندھ دی جائے تاکہ بار بار ٹھیک کرنے کی محنت سے جان چھوٹ جائے۔ جانور کی کھال کی چاروں ٹانگیں تو باندھنا آسان تھا لیکن باقی کھال کیسے باندھی جاتی۔ اس نے بیل کو ارد گرد لپیٹنے کی کوشش کی مگر اتنی لمبی اور مضبوط بیل نہ ملی جو اس کے حرکت کرتے جسم پر جمی رہتی۔
اچانک اس کی نظر کھال میں موجود ان سوراخوں پر پڑی جو ریچھ کی کھال اتارتے ہوئے پتھر کے چاقو نے بنا دیے تھے۔ سستو کچھ دیر سوچتا رہا پھر اس نے ان سوراخوں سے گزار کر بیل باندھی تو اس کا مسئلہ حل ہو گیا۔ اب باقی قبیلے والے سردی میں ٹھٹھرتے اور سستو گرم رہتا۔ یہ دیکھ کر باقی قبیلے والوں نے بھی اسی طرح کھال کے سوراخوں میں سے بیل گزار کر باندھنی شروع کی۔
سستو اپنی اس ایجاد سے مطمئن نہیں ہوا۔ بیل ٹوٹ جاتی اور اسے مرمت کرنے میں محنت لگتی۔ پھر سب کھالوں میں مناسب جگہوں پر سوراخ بھی نہیں ہوتے تھے جن سے انہیں باندھا جا سکتا۔ اس نے جانوروں کی باریک ہڈیوں سے کھال میں اپنی پسند کی جگہ پر سوراخ کرنا اور بیل سے بند کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اس نے جانوروں کی آنتوں اور کھال سے بنے فیتے اس کام کے لیے استعمال کرنے شروع کیے۔ یوں اس نے سوئی اور سلا ہوا کپڑا ایجاد کر کے فیشن انڈسٹری کی بنیاد ڈال دی۔
جب فیشن شروع ہو گیا تو نینڈرتھال رنگ برنگے پتھر، ہڈیاں اور دیگر خوشنما چیزیں بھی اپنے لباس میں ٹانکنے لگے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنے گھروں کو سجانے کے لیے ڈیکوریشن پیس بھی بنانے لگے۔
اس زمانے میں انسانی شعور بہت ترقی پا چکا تھا۔ پرانے زمانے کی انسانی نسلیں تو زندگی اور موت کی زیادہ فکر نہیں کیا کرتی تھیں، جیسے دوسرے جانور مرتے ویسے ہی ان کے ساتھی بھی مرتے۔ وہ انہیں وہیں چھوڑ کر آگے نکل جاتے۔ مگر آج سے پانچ چھے لاکھ سال پہلے ایک سستو کے گھر ایجاد کرنے کے بعد اب گھروں میں رہنے کا رواج پڑ گیا تھا۔ اب کوئی نینڈرتھال گھر میں مر جاتا تو باقی گھر والے بڑی مصیبت میں پڑ جاتے۔ مردے کو وہیں چھوڑتے تو چند دن بعد اتنی بدبو ہو جاتی کہ وہاں رہنا مشکل ہو جاتا۔ پھر دو چار مہینے کے لیے انہیں اپنی رہائش کے لیے کوئی عارضی پناہ گاہ دیکھنی پڑتی یا نئے سرے سے گھر بنانا پڑتا، جو ایک محنت طلب کام تھا۔ پتھر کے کلہاڑے سے درختوں کی شاخیں کاٹ کاٹ کر ایسا جھونپڑا بنانا جو برف اور بارش کو روک سکے، آسان کام نہیں تھا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ سستو کے چچا مستو کی قضا آئی۔ قبیلے میں کوئی جھونپڑی خالی نہیں تھی، تو انہوں نے نیا گھر بنانے کی ٹھانی۔ سستو اتنی زیادہ محنت کرنے کا سوچ کر ہی کانپ گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا کسی طریقے سے لاش کو ٹھکانے نہیں لگایا جا سکتا؟ اسے اٹھا کر کہیں دور لے جانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ اس میں بہت زیادہ محنت لگتی۔ سستو پریشانی کے عالم میں گھر کے ارد گرد چکر کاٹنے لگا۔ اس کی نظر ایک چھوٹے سے گڑھے پر پڑی جس میں ایک کوا مرا پڑا تھا۔ سستو غصے میں تو تھا، اس نے ایک پتھر کو ٹھوکر مار کر کوے کی طرف اچھالا۔ سستو کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ جیسے ہی پتھر اس کوے پر گرا، کوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
سستو خوشی سے اچھل پڑا۔ اس نے سوچا کہ اگر میں اس گڑھے کو کچھ گہرا کر لوں اور چچا مستو کی لاش کو اس میں ڈال کر اوپر بہت سے پتھر ڈال دوں، تو وہ بھی غائب ہو جائے گی اور مجھے نیا گھر نہیں بنانا پڑے گا۔ اس نے منصوبے پر عمل شروع کر دیا اور محض دو گھنٹے بعد اس کے چچا مستو کی لاش غائب ہو چکی تھی اور گھر دوبارہ رہائش کے قابل ہو گیا تھا۔ سستو نے اپنے گھر والوں کو بلایا۔ انہیں پہلے تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ گھر اب خالی تھا، پھر یہ سوچ کر ٹینشن ہو گئی کہ سستو نے لاش نجانے کیسے غائب کی ہے۔ کسی درندے کو کھلا دی ہے یا خود یہ کام کر دیا ہے۔ اس زمانے میں آدم خوری بھی تو عام تھی لیکن اپنے قبیلے والوں کو کھانے سے احتراز برتا جاتا تھا۔
سستو نے انہیں تدفین کے ذریعے لاش غائب کرنے کا طریقہ سکھایا۔ سب قبیلے والوں کو مردے غائب کرنے کا یہ طریقہ بہت پسند آیا۔ اور یوں انسانوں میں تدفین کا رواج پڑ گیا۔ نینڈرتھال ان قبروں پر پھول بھی ڈالتے تھے اور دوسری آرائشی اشیا بھی۔ یوں سستو کی اس دریافت کی بدولت مستقبل بعید میں پھول فروشوں کے کاروبار کی داغ بیل بھی پڑی۔

عدنان خان کاکڑ
عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.