بہت ٹینشن والا وقت چل رہا ہے۔ کپتان کہتا ہے کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، دل کو سکون ملتا ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ ہمارے پاس 180 ممبر موجود ہیں۔ دل بے قرار ہوتا ہے۔ گجرات کے چودھری کہتے ہیں کہ ہم کپتان کے ساتھ ہیں۔ ٹھنڈ سی پڑ جاتی ہے۔ آصف زرداری اور مولانا چودھریوں سے مل آتے ہیں اور ان کے نمائندے کہتے ہیں کہ بس کام پکا سمجھو۔ پریشانی ہو جاتی ہے۔ کپتان بھی چودھریوں سے مل آتا ہے۔ لگتا ہے کہ معاملہ سیٹ ہے۔ چودھریوں کا نمائندہ کہتا ہے کہ ہماری تو عدم اعتماد پر بات ہی نہیں ہوئی، خلجان سا ہونے لگتا ہے۔
ایم کیو ایم والوں سے کپتان کراچی جا کر ملتا ہے۔ سکون ہو جاتا ہے۔ ایم کیو ایم والے کہتے ہیں کہ ہم نے کپتان کو چائے پلا کر بھیج دیا ہے، سوشل میڈیا سے پتہ چلتا ہے کہ دس منٹ کی ملاقات تھی، لگتا ہے گڑبڑ ہو رہی ہے۔ پھر علیم خان جا کر ترین گروپ سے مل جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بزدار نہیں یا ہم نہیں۔ لگتا ہے کہ پنجاب بھی کپتان کے ہاتھ سے گیا اور مرکز بھی۔ پھر کپتان سے علیم خان گروپ کے لوگ مل آتے ہیں۔ لگتا ہے کہ کپتان کہیں نہیں جا رہا۔ پھر کپتان فوج کو کہتا ہے کہ کیا وہ چوروں کا ساتھ دے گی؟ سمجھ نہیں آتی کہ وہ آفر کر رہا ہے یا کنفیوز ہو رہا ہے۔ ہم بھی کنفیوز ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔
پھر جب یہ خبریں اڑتی ہیں کہ تحریک انصاف نے عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کا یہ طریقہ نکالا ہے کہ اپنے کسی ممبر کو ووٹ ڈالنے کے لیے اسمبلی جانے ہی نہیں دے گی اور کوئی گیا تو سپیکر کو کہہ کر نہ صرف اس کا ووٹ کینسل کروائے گی بلکہ اسے فوراً نا اہل بھی کر دے گی، تو لگتا ہے کہ کپتان کے ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ دل ڈوب جاتا ہے۔
بس عجیب سا رولر کوسٹر چل رہا ہے جذبات کا۔ ہر لحظے یہی لگتا ہے کہ کپتان کی حکومت نہ چلی جائے۔ کپتان کی حکومت چلی گئی تو ساڑھے تین برس کی محنت برباد ہو جائے گی۔ بلکہ تئیس سالوں کی محنت خاک میں مل جائے گی۔ جتنے منتقم مزاج اور کرپٹ آصف زرداری اور نواز شریف ہیں، ہمیں تو یقین ہے کہ کپتان نے جو کچھ پچھلے ساڑھے تین برس میں بنایا ہے وہ سب بیچ کھائیں گے۔
کپتان نے جو دس ارب درخت لگائے ہیں اور جن کی تعریف عالمی ادارے بھی کرتے ہیں، کپتان کے جاتے ہی وہ بھی غائب ہو جائیں گے۔ کسی کو دکھائی نہیں دیں گے۔ کوئی مانے گا ہی نہیں کہ کپتان کے زمانے میں پاکستان ایک جنگل بن گیا تھا۔ نہ ہی ساڑھے تین سو ڈیم ملیں گے۔ انہیں ڈھونڈنے نکلیں تو ڈیم کیا جوہڑ تک دکھائی نہیں دے گا۔ چلو بھر پانی نہیں ملے گا شرم سے ڈوب مرنے کے متلاشیوں کو۔ نمبر ون کارکردگی دکھانے والے مراد سعید کے کارنامے بھی ہوا میں مل جائیں گے۔ ہزاروں لاکھوں کلومیٹر سڑکیں جو مراد سعید نے بنائیں، حکومت جاتے ہی وہ بھی چلی جائیں گی۔ مسافروں کو بس ایسی سڑکیں دکھائی دیں گی جن کی پچھلے ساڑھے تین برس مرمت تک نہیں ہوئی۔ پچاس لاکھ بنے بنائے گھر بھی نرے ہوائی قلعے ثابت ہوں گے اور ایک کروڑ نوکریاں، ایک کروڑ شیخیاں نکلیں گی۔بلکہ ترقی کیا کپتان کی کابینہ اور مشیر تک کسی کو دکھائی نہیں دیں گے۔
بندہ یہ سب کارنامے غائب ہوتے دیکھے گا اور اسے لگے گا کہ کپتان ایک جادوگر تھا جس نے جادو سے پاکستان کی حالت بدل دی تھی۔ جیسے طلسم ہوشربا میں جادوگر کی جان جاتے ہی اس کا بنایا سحر کا کارخانہ ختم ہو جاتا ہے، ویسے ہی کپتان کی حکومت جاتے ہی سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گا۔ پاکستان کی اس سے بھی بری حالت ہو جائے گی جیسی کپتان کی آمد سے پہلے تھی۔
کپتان کے یہ سب کارنامے غائب کیوں ہوں گے؟ کیونکہ انہیں کرپٹ زرداری اور نواز شریف بیچ کھائیں گے، کسی کو کانوں کان پتہ نہیں چلے گا کہ پیسے کہاں گے۔ سارے درختوں کو وہ ٹمبر مافیا کو دے کر فالودے والے کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے جمع کروا دیں گے۔ ڈیم کا ملبہ بنا کر بیچ ڈالیں گے اور پانی نکال کر اس کے ٹینکر کراچی والوں کو فروخت کریں گے۔ سڑکیں اٹھا کر اپنے علاقے میں لے جائیں گے اور ان پر اپنے نام کی تختی لگا کر اترائیں گے اور وہ سڑکیں بنانے کے نام پر سرکار سے پیسے لے لیں گے۔ اور جہاں سے وہ سڑکیں اکھاڑی ہوں گی وہ جگہیں کھنڈر بن جائیں گی۔ وہ پروپیگنڈا کریں گے کہ کپتان نے تو یہ سب کچھ کاغذ اور سوشل میڈیا پر بنایا تھا، حقیقت میں تو کچھ بنایا ہی نہیں بلکہ بنا بنایا کام بگاڑا ہے۔
حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کپتان کے زمانے میں پاکستان جتنی زیادہ ترقی کر رہا ہے، اتنی آج تک نہیں کی۔ اسے دیکھ کر مغرب خوفزدہ ہے۔ عالمی قوتیں اسے ہٹانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔
پھر جب ہم کسی کو بتائیں گے کہ کپتان نے محض تین برس میں کراچی کو نیویارک اور لاہور کو لاس ویگاس بنا دیا تھا، تو سننے والا ہمارا یوں منہ تکے گا جیسے ہم سے بڑا جھوٹا یا انصافی کوئی ہو ہی نہ۔ اسے یقین ہی نہیں آئے گا کہ پاکستان اتنا زیادہ ترقی یافتہ تھا جسے منتقم مزاج کرپٹ لوگ لوٹ کر کھا گئے۔ بس ہم تو اب یہی دیکھیں گے کہ کپتان کے جاتے ہی جو کچھ اس نے بنایا تھا وہ کسی کو دکھائی نہیں دے گا۔ ہائے اپوزیشن کا یہی جلاپا اور حسد پاکستان کو مار گیا۔

عدنان خان کاکڑ
عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.