24سال بعد آسٹریلوی کرکٹ ٹیم پاکستان آئی،ایئرپورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے کھلاڑی اسلام آباد کی خوبصورتی دیکھ کر یہی سوچ رہے ہوں گے کہ کیا زبردست شہر ہے۔
ہم نے اپنے سینئرز سے جو سنا یہ ملک سے قطعی مختلف ہے،جو آفیشلز یہاں پہلے آ چکے ان کے ذہن میں آیا ہوگا کہ ’’پاکستان کتنا بدل گیا‘‘البتہ راولپنڈی ٹیسٹ کھیل کر ٹیم کو اندازہ ہو گیا کہ کافی کچھ بدل چکا لیکن 75 سال میں پچز تبدیل نہیں ہوئیں۔
ماضی میں بھی گورے یہاں آ کر کنڈیشنز پر تنقید کرتے تھے اور اب پہلے ٹیسٹ کے بعد ہی دنیا بھر میں راولپنڈی کی پچ پر نکتہ چینی شروع ہو چکی، آسٹریلوی میڈیا کے مطابق آئی سی سی بھی اسے غیر معیاری قرار دے کر کارروائی کر سکتی ہے۔
میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ پچ بنانا میزبان بورڈ کی صوابدید ہے،جب ہماری ٹیم آسٹریلیا جاتی ہے تو وہاں کی تیز پچز پر بیٹرز کو گیند ہی نظر نہیں آتی،3،3 دن میں ٹیسٹ ختم ہو جاتے ہیں،ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ اپنی قوت کو ذہن میں رکھ کر پچز بنائیں،آسٹریلیا فاسٹ تو بھارت اسپن پچز بنا کر میچ جیتتا ہے،مگر شاید ہمیں اپنی قوت کا ہی علم نہیں یا خوفزدہ تھے کہ بازی الٹی نہ پڑ جائے۔
اس لیے روایتی دفاعی مائنڈ سیٹ کے ساتھ ایسی پچ بنائی جس پر کوئی بیٹر آؤٹ ہی نہ ہو،ہم رنز کا پہاڑ کھڑا کریں تو مہمانوں کو بھی مایوسی نہ ہو،اس چکر میں ایسی پچ بنائی گئی جس پر بیٹنگ آنے پر شاید شاہین شاہ آفریدی بھی سنچری بنا دیتے،ہمارے کئی پیسرز ان فٹ ہیں،اگر فٹ بھی ہوتے تو تیز ٹریک بنانے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا تھا کیونکہ پاکستانی بیٹرز خود کینگروز کے سامنے جدوجہد کرنے لگتے،البتہ اپنے اسپنرز پر تو اعتماد کرنا چاہیے تھا،ڈیڈ پچ پر بھی نعمان علی نے 6وکٹیں لے لیں۔
اگر سازگار کنڈیشنز ہوتیں تو شاید وہ ٹیم کو میچ جتوا دیتے،پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا، فائٹر جہاز،گاڑیاں،موبائل فون سمیت کیا کچھ یہاں بنتا ہے لیکن پچ بنانے کا کام نہیں آیا،اب بھی بورڈ بزرگ آغا زاہد کو گھر سے بلا کر کہتا ہے کہ آئیں پچ بنا کر دیں،آغا صاحب یقینا بہت سینئر ہیں لیکن اب ان کے آرام کی عمر ہے۔
پچز کی تیاری کا کام ایک سائنس ہے اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو ذمہ داری سونپنا چاہیے جنھیں آغا زاہد جیسے سینئرز کام سمجھا کر سائیڈ پر ہو جائیں،یہاں تو پچ اینڈ سوائل کا ایک نوجوان ماہر آیا تو مذاق اڑا اڑا کر نفسیاتی مریض بنا کر گھر بھیج دیا،پہلا ٹیسٹ ڈرا کر تو لیا لیکن اگر کل کو راولپنڈی پر پابندی لگ گئی یا جرمانہ ہوا تو کیسا تاثر سامنے آئے گا۔
ہم ویسے ہی شکوہ کرتے ہیں کہ شائقین اسٹیڈیم نہیں آتے اگر ایسے ڈل میچز ہوں گے تو کون پیسے خرچ کر کے آئے گا؟اس طرح تو تینوں میچز ڈرا کر کے خوش ہو جائیں لیکن کیا اس سے ہماری کرکٹ کو کوئی فائدہ ہوگا،لوگ شاہین شاہ آفریدی کا اسمتھ،عثمان اور لبوشین سے برابر کا مقابلہ دیکھنا چاہتے تھے مگر وہ بیچارہ خوب جان لڑاتا رہا جس کا کوئی فائدہ نہ ہوا،ایک ایسی پچ جہاں ایک ہزار سے زائد رنز بنے اور5دن میں 14وکٹیں گریں وہاں بیچارے بولرز کیا کر سکتے تھے۔خیر پچ جیسی بھی تھی ہم بیٹرز سے عمدہ کھیل کا کریڈٹ نہیں چھین سکتے،امام الحق کے پورے کیریئر پر چچا انضمام الحق کی چھاپ لگی رہی،وہ جب چیف سلیکٹر نہ رہے تو اوپنر کو بھی بہت کم چانسز دیے گئے۔
عابد علی ٹیم میں مستقل جگہ بنا چکے تھے مگر بدقسمتی سے دل کے عارضے میں مبتلا ہو کر کھیل سے دور ہونا پڑا،اس سے امام کو واپسی کا موقع ملا جس سے انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور دونوں اننگز میں سنچریاں بنا دیں،مستقل ایسی کارکردگی امام کو اپنی الگ پہچان بنانے میں مدد دے گی،اسی طرح عبداللہ شفیق کو کیریئر کی پہلی سنچری سے نام کمانے کا موقع ملے گا۔
پہلی اننگز میں اظہر علی نے بھی رنز کی بہتی گنگا میں خوب ڈبکیاں لگائیں، بابر اعظم بدقسمت رہے جو رن آؤٹ ہونے کی وجہ سے بڑی اننگز نہیں کھیل پائے،مرد بحران فواد عالم کو تو ایسی پچز پر کبھی بیٹنگ کا موقع ہی نہیں ملتا،بیٹرز کی سنچریاں خوش آئند مگر 2بولرز نے بھی رنز دینے کی سنچری بنا لی،دیگر دو بھی تھوڑے سے فرق سے پیچھے رہ گئے،مگر اس میں ان بیچاروں کا کوئی قصور نہیں ہے،ہو سکتا ہے کہ آپ سوچیں پاکستان نے میچ ڈرا کر لیا بیٹنگ میں اتنے ریکارڈز بنا لیے اور یہ خوش ہونے کے بجائے پچ کو لے کر بیٹھا ہے تو مائی ڈیئر فرینڈ اگر آپ کرکٹ کا سوچیں تو میری باتیں درست لگیں گی،راولپنڈی کی پچ سے عموماً پیسرز کو تھوڑی بہت مدد مل ہی جاتی تھی نجانے اس بار کیا پھونک دیا کہ بالکل تبدیل ہو گئی۔
اب کراچی ٹیسٹ کے لیے دیکھتے ہیں کیسی پچ بنائی جاتی ہے،کم از کم اپنے اسپنرز کے چہرے ہی ذہن میں رکھ لیں،ڈریں نہیں یقین مانیے کہ ہمارے بولرز کسی سے کم نہیں اور وہ میچ جتوا سکتے ہیں،بیٹرز کے حوصلے بھی بلند ہیں،آخر میں آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا شکریہ کہ وہ پاکستان آئی اور مسلسل اچھے رویے سے پاکستانیوں کے دل جیت رہی ہے۔
چاہے وہ گراؤنڈ میں ڈیوڈ وارنر کا ڈانس ہو یا لبوشین کا اپنے لیے بینرز لیے مداحوں کو سوشل میڈیا پر مخاطب کرنا ،یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ مہمانوں کا یہاں اچھا وقت گذر رہا ہے،ویسے بھی پاکستان کی مہمان نوازی دنیا بھر میں مشہور ہے،اس بار بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی،سیکیورٹی انتظامات بھی زبردست ہیں،امید ہے بقیہ میچز کا بھی کامیابی سے انعقاد ہوگا اور کینگروز یہاں سے خوشگوار یادیں لے کر رخصت ہوں گے،اس ٹور نے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ سے بھی ہماری ہوم سیریز کے لیے راہ ہموار کر دی ہے،شکریہ آسٹریلیا۔

سلیم خالق
سلیم خالق کی تمام تحاریر ایکسپریس بلا گ سے لی جاتی ہیں. مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں