”دیکھیں جنگ بہت بری چیز ہے۔ یہ قوموں کو تباہ کر دیتی ہے۔ رئیس کو گداگر بنا دیتی ہے اور گداگر کو بھوک سے مار ڈالتی ہے۔ بے شمار بچے یتیم و یسیر ہو جاتے ہیں۔ ان کے ہنستے بستے گھر تباہ ہو جاتے ہیں۔ جنگ کو ہمیشہ بہت برا جاننا چاہیے۔ یوکرین ایک آزاد ملک ہے۔ اسے اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی اپنی مرضی سے بنائے۔ اپنی مرضی سے کسی بھی فوجی یا غیر فوجی اتحاد میں شامل ہو۔ روس کو یہ حق حاصل نہیں کہ پہلے وہ اس پر حملہ کر کے یہ بہانہ بنائے کہ روسی نسل کے لوگوں کے ساتھ برا سلوک ہو رہا ہے، اور اس کے کچھ حصوں پر سے یوکرین کی حکمرانی ختم کر دے، اور اس کے پانچ چھے برس بعد دوبارہ حملہ کر کے اس کے دارالحکومت تک فوجیں لے آئے۔ یہ تو کوئی معقول جواز نہیں کہ آزاد یوکرین مغرب کی طرف جھک رہا تھا، نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہو کر ان کی فوجیں اور روس کو ہدف بنانے والے میزائل اپنے ہاں تعینات کروا رہا تھا۔ ایک آزاد ملک کو اس کا حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی کی فوجی پالیسی بنائے اور دوست ملکوں کو اپنے ہاں فوج لانے کی اجازت دے۔ اور کچھ نہیں تو پوٹن یہی سوچ لیتا کہ یوکرین والے اس کے ہم مذہب مسیحی بھائی ہیں۔“ ہم نے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھتے ہوئے اسے سمجھایا۔
اس نے میری طرف دیکھا اور کہا ”روس ایک بڑی طاقت ہے۔ چند برس پہلے وہ امریکہ کے برابر کی سپر پاور تھا۔ نیٹو اتحاد روس کے خلاف نہیں تو پھر کس کے خلاف ہے؟ کیا روس جیسی طاقت یہ برداشت کر سکتی ہے کہ اس کے ہمسائے میں اس کے دشمنوں کا جم غفیر جمع ہو جائے؟ وہاں ایسے ایٹمی میزائل نصب کر دیے جائیں جو ایک دو منٹ میں ماسکو کو تباہ کر دیں اور ماسکو کو اتنی مہلت بھی نہ مل پائے کہ وہ اپنے شہریوں کو پناہ گاہ میں بھیج سکے؟ ماسکو کا یوکرین کے بارڈر سے فاصلہ ہی کتنا ہے؟ محض چار سو پچاس کلومیٹر۔ کیا کوئی طاقتور ملک ایسا خطرہ اپنی سرحد پر برداشت کر سکتا ہے؟“
ہم نے جواب دیا ”یہ سب خیالی باتیں ہیں۔ روس کا وہم ہے کہ نیٹو اس پر حملہ کر دے گا۔ جنگ کسی صورت قبول نہیں کی جا سکتی۔ اس سے لوگوں کی ہنستی بستی زندگی تباہ ہو جاتی ہے“ ۔
وہ بولا ”یوکرین کو بھی وہم سا تھا کہ روس اس پر حملہ کر دے گا۔ اسی لیے نیٹو میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ روس نے اس کا وہم دور کر دیا۔ اگر بھارت یہ کہے کہ ایٹمی پاکستان کی سرحد سے دہلی صرف ساڑھے تین سو کلومیٹر دور ہے اور وہ خود کو خطرے میں محسوس کرتا ہے۔ ایٹمی حملے کی صورت میں اس کے پاس خود کو بچانے کا وقت بھی نہیں ہو گا۔ اور پاکستان پر حملہ کر دے تو کیا اس کی یہ منطق آپ درست مانیں گے یا ویسے ہی مذمت کریں گے جیسے روس کی کر رہے ہیں؟“
ہم کہنے لگے ”بتایا تو ہے کہ ہم جنگ کے خلاف ہیں۔ ہم جس طرف روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف ہیں اسی طرح بھارت کے پاکستان پر حملے پر بھی ہمارا اصولی موقف وہی ہو گا“ ۔
اس نے جواب دیا ”لیکن آپ تو ساری دنیا میں جہاد کے داعی ہیں۔ جنگ چاہتے ہیں۔ اس سے محبت کرتے ہیں“ ۔
ہم نے کہا ”جب مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو ہماری خاموشی جرم ہے۔ ہمارا ایٹمی طاقت ہونا اور اتنی طاقتور فوج رکھنا کس کام کا اگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد نہ کر سکیں“ ۔
وہ بظاہر لاجواب ہو گیا تھا۔ کچھ دیر خاموشی سے اپنے چائے کے کپ کو گھورتا رہا۔ پھر کہنے لگا ”پھر آپ ہم افغانوں کو کیوں ہمارے حال پر نہیں چھوڑ دیتے۔ ہم بھِی یوکرین کی طرح ایک آزاد ملک ہیں۔ اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کے مطابق بنا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں شورش ہوئی تو ہمارے صدر نے سوویت فوج کو مدد کے لیے بلایا۔ آپ نے دنیا بھر سے جنگجو بھرتی کر کے ہمارے ملک میں جنگ شروع کر دی۔ پھر کچھ امن کے دن آئے تو آپ کہنے لگے کہ ہمارے ملک میں انڈیا کے قونصل خانے آپ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اور ہم سے خفیہ جنگ کرتے رہے۔ یہ کہہ کر آپ ہمارے ہاں لگی شورش کی آگ پر تیل چھڑکتے رہے۔ آپ بھی تو وہی کرتے رہے ہیں جو روس آج یوکرین میں کرتا ہے۔ ہم بھی تو آپ کے ہم مذہب مسلمان بھائی ہیں“ ۔
ہم نے ترنت جواب دے کر اس کا منہ بند کر دیا ”دیکھو ہم یہ سب کچھ آپ کو بھائی سمجھ کر آپ کی بھلائی کے لیے ہی تو کر رہے ہیں۔ ویسے بھی پنگے تو آپ نے شروع کیے تھے۔ ہمارے ہاں شورش پیدا کی تھی۔ ہم نے تو اس کا جواب دیا تھا۔ پھر جب آپ کے حکمران نے حماقت کر کے سوویت افواج کو اپنے ہاں بلا لیا تو محض آپ کو بچانے کی خاطر ہم نے دنیا بھر سے روپیہ پیسہ مانگا اور ہماری امانت دیکھیں کہ سوئس بینکوں میں رکھوا کر خود امیر نہیں ہوئے بلکہ سارا پیسہ ایمانداری سے آپ کے ملک میں لگایا۔ آپ کے تیس چالیس لاکھ شہریوں کو کئی دہائیوں تک اپنے ملک میں رکھ کر انہیں پناہ اور کھانا دیے۔ آج ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آپ کے عوام ہمارے تمام احسانات بھلا کر ہمیں اتنا برا کیوں سمجھتے ہیں؟“
اس نے ہمیں دیکھا اور ہار مانتے ہوئے بولا ”آپ درست کہتے ہیں۔ یوکرین اور افغانستان کی قسمت ایک جیسی خراب ہے۔ یوکرین کے مشرق میں طاقتور روس ہے، ہمارے مشرق میں طاقتور پاکستان۔ آپ بھی اپنے مشرق میں موجود طاقتور بھارت کا خیال کیا کریں، وہ بڑی معاشی طاقت بننے کے بعد تیزی سے اپنی فوجی طاقت بڑھا رہا ہے۔ مشرق والے اپنے تحفظ کے معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں۔ سنا ہے بھیڑیے اور میمنے کی حکایت میں میمنا مغرب میں تھا۔ اس دنیا کی حقیقت بس یہی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ جب اپنے مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو ہر طاقتور رہی کرتا ہے جو روس کر رہا ہے“ ۔

عدنان خان کاکڑ
عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.