کوئی چالیس لاکھ سال قبل کی بات ہے، سستو کے دو قدموں پر چلنے اور کمر درد دریافت کرنے کے بعد اب ابتدائی انسان دو قدموں پر چلنے کے عادی ہونے لگے تھے۔ یوں وہ چار پایوں سے دو پایوں میں تبدیل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ چار پایہ ممالیہ جانوروں میں افزائش نسل کا موسم ہوتا ہے۔ نومولود کی پیدائش کے وقت موسم ایسا ہوتا ہے جو وہ برداشت کر سکتا ہے۔ اور جانوروں کے بچے پیدائش کے بعد خود سے چلنے پھرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ مگر جدید انسان کے بچے کو ڈیڑھ دو سال ماں باپ کی نگہداشت درکار ہوتی ہے جس کے بعد وہ چلنا پھرنا شروع کرتا ہے۔ اور انسان افزائش نسل کے لیے کسی موسم کے پابند بھی نہیں ہوتے۔ یہ سلسلہ کیسے شروع ہوا؟ اس کا کریڈٹ بھی ہمارے ہیرو سستو کو جاتا ہے۔
تو ہوا یوں کہ درختوں سے اترنے کے باوجود انسان ابھی تک افزائش نسل کے لیے موسم کے محتاج تھے۔ گو انہیں معلوم نہیں تھا کہ دو پیروں پر چلنے کے بعد مادہ کی پیلوک کینال (نافچہ) اب تنگ ہو چکی تھی اور بہت چھوٹے بچے اب پیدا ہو سکتے تھے۔
تو اس زمانے میں جب افزائش نسل کا موسم آیا تو سستو کو بہت پریشانی اٹھانی پڑی۔ اسے جو مادہ بھی اچھی لگتی اس کے پاس امیدواروں کی ایک لمبی قطار لگی ہوتی۔ اور آگے بڑھنے کا واحد ٹوکن گھونسا تھا۔ جو مار پیٹ میں جیت جاتا اسے موقع مل جاتا۔ باقی ماندہ انسان مزید جگہوں پر کوشش کرتے۔ اب افزائش نسل بھی لازم تھی اور ایسا نہ کرنے والے کو باقی قبیلہ بہت برا گردانتا۔
دوسری طرف سستو نہ تو لڑائی جھگڑا کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا نہ وہ قطار میں کھڑا ہو سکتا تھا۔ سارا سیزن وہ ندی کنارے آرام کرتا اور پھل فروٹ کھاتا رہا۔ سیزن ختم ہونے کے بعد اس نے دیکھا کہ رش ختم ہو گیا ہے تو پھر اس نے ایک ایسی لڑکی کو محبت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جسے پورے سیزن میں بہت گئی گزری سمجھ کر کسی دوسرے نوجوان نے نہیں پوچھا تھا۔ اب تک جینیاتی تبدیلیوں کے باعث مادائیں بھی موسم کی محتاج نہیں رہی تھیں بلکہ منت خوشامد پر ماننے کی صفت ان میں پیدا ہو چکی تھی۔ سستو سے زیادہ چرب زبان بھلا کون تھا، وہ تو سارا دن کام کاج کرنے کی بجائے فنون لطیفہ کی تخلیق میں وقت گزارتا تھا۔ وہ لڑکی جلد ہی آمادہ ہو گئی۔
باقی انسانوں نے جب دیکھا کہ وہ دونوں غیر موسمی پیوند کاری کر رہے ہیں تو پہلے پہل انہوں نے بہت مذاق اڑایا۔ لیکن پھر وہ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ سستو کی روزانہ محبت کا جواب بہت پرجوش محبت سے ملنے لگا ہے۔ کوئی پوچھتا کہ اس کام کا کیا فائدہ جبکہ سیزن نہ ہونے کی وجہ سے بچہ تو پیدا ہو گا ہی نہیں، تو سستو اور اس کی محبوبہ وہی کہہ کر اس کا منہ بند کر دیتے جو ہزاروں سال بعد ایک پنجابی شاعر نے کہا تھا، ’مالی دا کم پانی دینا، بھر بھر مشکاں پاوے مالک دا کم پھل پھول لانا، لاوے یا نہ لاوے‘ (مالی کا کام پانی دینا ہے، بھر بھر کر مشکیں ڈالے، مالک کا کام پھل پھول لگانا، لگائے یا نہ لگائے ) ۔ ایک اطمینان بھرا جواب ملتا، ”پھل لگے نہ لگے لیکن کوشش میں بہت مزا ہے۔“
باقی سب انسان ان کا بہت مذاق اڑاتے مگر وہ اس وقت اپنا سا منہ لے کر رہ گئے جب مقررہ وقت پر سستو ایک صحت مند بچے کا ابا بن گیا۔ دیکھا دیکھی باقی خواتین و حضرات نے بھی یہ کوشش شروع کر دی اور انہوں نے یہ جانا کہ سستو ٹھیک کہتا تھا، پھل لگے نہ لگے لیکن مشکوں والی کوشش مزے کی ہے۔
یوں انسانوں کی غیر موسمی افزائش کا رواج شروع ہو گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اب کمزور سا بچہ دو تین برس تک ماں کو زیادہ سنبھالنا پڑتا۔ اس دوران نہ تو وہ پھل پھول اور جڑی بوٹیاں چننے جا پاتی نہ شکار کر سکتی۔ یوں خوراک کے لیے اسے اپنے شوہر کا محتاج ہونا پڑتا۔ اس طرح سستو نے نہ صرف بارہ ماسی سیکس دریافت کی بلکہ وہ پدر سری معاشرت کی داغ بیل ڈالنے میں بھی کامیاب ہوا۔
سستو نے یہ بھی دریافت کیا کہ ایسے بہت سے کام جو پہلے اسے خود کرنے پڑتے تھے، اب وہ بچوں سے کروا سکتا ہے۔ یعنی جتنے زیادہ بچے ہوں، سستو کی زندگی اتنی زیادہ آسانی سے گزرے گی۔ یعنی ہر طرح سے فائدہ تھا۔ اس زمانے میں بجلی تو ہوتی نہیں تھی اور نہ ہی کھیل ایجاد ہوئے تھے۔ ابتدائی انسانوں کے پاس شام کی بس ایک ہی اینٹرٹینمنٹ تھی اور اس اینٹرٹینمنٹ کے نتیجے میں زندگی بھی آسان ہو جاتی۔ یہ ماڈل کئی لاکھ سال تک کامیابی سے چلا اور پھر ٹی وی کی ایجاد کے بعد رفتہ رفتہ اس ٹرینڈ میں کمی آتی گئی اور آبادی کی بے تحاشا بڑھوتری کم ہونے لگی۔

عدنان خان کاکڑ
عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.