Attaul-Haq-Qasmi 190

گندہ معاشرہ !

ان دنوں سوشل میڈیا پر جاوید چوہدری کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے میں کچھ عرصے سے اخبارات کا سرسری مطالعہ یعنی صرف ہیڈلائنز کی صورت میں کرتا ہوں چنانچہ جس خبر کو بنیاد بنا کر چوہدری صاحب کے خلاف طعن وتشنیع اور بیہودگی کا سلسلہ جاری ہے ،میں اس سے بے خبر رہا تھا جب اس مضمون کی پوسٹیں مجھے مختلف حلقوں کی طرف سے موصول ہوئیں تو اصل معاملے کا بھی پتہ چلا۔

اخباری خبر کے مطابق جاوید چوہدری کے صاحبزادے نے تین دوسرے لڑکوں سے مل کر صبح آٹھ بجے ایک بوائز کالج پر حملہ کیا یہ نوجوان نشے میں دھت تھے اور انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے بدتمیزی بھی کی۔میں جاوید چوہدری سے اس حوالے سے بات کرنا چاہتا تھا مگر ان سے بات نہ ہوسکی۔مگر معاملے کی کچھ نہ کچھ نوعیت مجھے سمجھ آ گئی تھی خبر میں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ ان نوجوانوں نے بوائز کالج پر حملہ کیوں کیا، صبح آٹھ بجے وہاں کون سے معززین تھےجن کی بے عزتی کی گئی، وہ کونسی مخلوق ہے جو علی الصبح شراب نوشی کرتی ہے اور پھر ہر جیب میں کیمرہ ہونے کے باوجود ایک بوائز کالج پر حملہ آور بھی ہو جا تی ہے ۔ اس معاملے کی پرتیں آہستہ آہستہ کھلتی چلی گئیں جب چار نوجوانوں کے ذکر میں سے تین نوجوان ’’خارج‘‘ کر دیے گئے اور فوکس صرف جاوید کے صاحبزادے پر کر دیا گیا اس کے بعد ایک تبدیلی اور نظر آئی ، وہ یوں کہ بیٹے کوبھی چھوڑ کر نشانہ صرف والد کو بنانا شروع کر دیا گیا۔ ہربات کی کوئی لاجک بھی ہوتی ہے مگر یہاں کوئی لاجک نظر نہیں آئی سوائے اس کے کہ اصل مقصد جاوید چوہدری کو نشانہ بنانا تھا ۔

یہ بھی پڑھیں: -   تیکھی غزلوں کا شاعر

جاوید چوہدری ایک سیلف میڈ انسان ہیں انہوں نے اپنے کالموں سے لاکھوں لوگوں کے دل جیتے، میری نظروں کے سامنے کالم نگاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے کاروبار بھی شروع کیا حق حلال کی کمائی کے ساتھ اور اس کے لئے کوئی بیساکھی بھی استعمال نہ کی چنانچہ آج وہ ماشااللہ آسودہ حال زندگی بسر کر رہے ہیں۔میں ان کے صاحبزادے سے بھی ملا ہوں دن اور شام کے اوقات میں وہ بالکل نارمل حالت میں ملا،میں نے اسے بہت مودب بھی پایا اگر کوئی انسان ’’شام‘‘ کو بھی بقائمی ہوش وحواس نظر آتا ہے مگر وہ صبح آٹھ بجے ’’نشے میں دھت‘‘ ایک کالج پر حملہ آور ہوتا ہے تواس بوالعجمی پر ہنسا ہی جا سکتا ہے!

مگر جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ کہانی کے آخر میں چاروں نوجوان آئوٹ آف فوکس ہو جاتے ہیں اور نشانے پر جاوید چوہدری کو لے لیا جاتا ہے، تو اسے اتفاقاً نہیں ’’سوئے اتفاق‘‘ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ چوہدری صاحب کے حوالےسے ہر طرح کی یاوہ گوئی، الزامات، اور کردار کشی کی جا رہی ہے ،اللہ جانے وہ ان دنوں کون سا ایسا کالم لکھ بیٹھے ہیں جس کی سزا بھگت رہے ہیں ۔چوہدری صاحب ایک ملنسار، خوشگوار شخصیت کے حامل ہیں وہ کسی کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی والے صحافیوں میں شامل نہیں ہیں، ان کا کوئی اسکینڈل آج تک سامنے نہیں آیا، میرے بہت سے صحافی دوست جو صرف صحافت سے وابستہ ہیں اور کوئی کاروبار نہیں کرتے، اس وقت ان کی دولت کا اعشاریہ کہیں کا کہیں پہنچ چکا ہے ۔اب اگر چوہدری صاحب پر گالی گلوچ کا سلسلہ جاری ہے تو صحافی برادری کو چاہئے تھا کہ وہ اس ضمن میں اپنی گواہی پیش کرتی، مگر سوائے طلعت حسین کے کوئی سامنے نہیں آیا خود میرے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ پیش آیا تھا ہر کوئی جانتا تھا کہ حقیقت کیا ہے ،مگر سچائی کے علمبردار اس وقت بھی خاموش رہے !

یہ بھی پڑھیں: -   یہ بھی ایک لائف اسٹائل ہے

بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک بیمار معاشرہ بن چکا ہے، عزت اور احترام سے محروم لوگ کسی دوسرے کو عزت و احترام کا حامل نہیں دیکھ سکتے۔ہماری نظر لوگوں کی کمزوریوں پر رہتی ہے ، اگر ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے تو کم از کم الزام تو لگایا جا سکتا ہے، میرا تجربہ یہ ہے کہ میں اگر دوستوں کی محفل میں یا اپنے کالم میں کسی شخصیت کے بارے میں حسنِ ظن کا اظہار کرتا ہوں تو مجال ہے کہ کوئی حاضر مجلس یہ بات اس شخص تک پہنچائے لیکن اگر میری طرف سے سوئے ظن کا اظہار ہوتا ہے تو شام تک یہ ’’خبر‘‘ سارے شہر میں پھیل چکی ہوتی ہے ۔ہم وہ پرندے ہیں جو خوراک میں گندگی تلاش کرتے اور اونچی اڑان چھوڑ کر نیچی پرواز پر آ جاتے ہیں ۔موجودہ سیاسی صورتحال میں اور سیاست میں بے جا مداخلت کی وجہ سے دن بدن باہمی نفرتوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔مخالفین پر اس درجہ کیچڑ اچھالنے کا رواج ہو گیا ہے کہ سفید قبائیں بھی داغدار کر دی جاتی ہیں ہم کسی کی ماں بہنوں کو بھی معاف نہیں کرتے۔جو زبان پر آتا ہے بکتے چلے جاتے ہیں لفظ غدار تو اب ہمارا معاشرتی تکیہ کلام بن چکا ہے پوری اپوزیشن غدار ہے اور لاکھوں کروڑوں دوسرے لوگ بھی غدار ہیں اب کوئی ’’محب وطن‘‘ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا، کافر سازی کا کاروبار بھی عروج پر ہے اگر ایک دوسرے پر کفر کا الزام لگانے و الوں کی باتوں پر ایمان لائیں تو آپ کو کوئی مسلمان بھی ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ یہ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ کیا ہم نے اللّٰہ کو جان نہیں دینی؟ یہ ایک گندہ معاشرہ ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں اس کی صفائی میں جانے کتنا عرصہ لگے گا؟ اس ضمن میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: -   اور اب خانیوال!
Attaul-Haq-Qasmi
عطاءالحق قاسمی

کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں