اگر کسی ناول پر لکھتے ہوئے شروع میں ہی کہہ دیا جائے کہ یہ ناول گزشتہ دو تین دہائیوں میں لکھے گئے ناولوں میں سرفہرست ہے تو لکھنے والا بہت مشکل میں پڑ جائے گا۔ خصوصاً ایسا لکھاری جو نقاد نہیں ہے شریف آدمی ہے ۔تو قارئین کرام میں اس وقت اسی بھسوڑی میں پڑا ہوا ہوں ۔کاش میں نقاد ہوتا۔
میں جس ناول کا ذکر کر رہا ہوں وہ اصغر ندیم سید کا ناول ’’دشت امکاں ‘‘ ہے اوریہ ناول میری پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے ۔ میں اصغر کو کم و بیش چالیس سال سے جانتا ہوں میں نے اس کے ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک بے شمار سفر کئے ہیں ۔ ہم نے سارا سارا دن ایک ساتھ گزارا ہے مجھے اسے جاننے کا بہت دعویٰ تھا مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ بطور انسان اور بطور دانشور اس سے پہلی دفعہ اس کے ناول کی وساطت سےمتعارف ہوا ہوں بطور انسان اس لئے کہ ناول میں مصنف کی آپ بیتی بھی کسی نہ کسی طور شامل ہوتی ہے اوراس ’’آپ بیتی ’’ میں آنس ایک درد مند انسان نظر آتا ہے جو دراصل خود مصنف اصغر ہے اور بطور دانشور یوں کہ اس سے پہلے اس کا ’’خطاب‘‘ مختلف تقاریب میں سنا تھا یا کچھ مضمون پڑھے تھے مگر اس ناول میں آپ کو مکمل اصغر ندیم ہی نظر آئے گا کہ اس میں اس کی کتابوں پر پڑھے جانے والے تعارفی مضامین والی لحاظ داری نظر نہیں آئے گی اور وہ احتیاط بھی نہیں جو ہماری ڈرائونی حکومتوں کی وجہ سے ہمارا جبر بن کر رہ گئی ہے۔ میں ایک اور بات پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اردو ادب میں یہ پہلا اور مکمل تہذیبی ،ثقافتی ناول ہے۔ میں یہ بات خصوصاً تکنیک کے حوالے سے کر رہا ہوں، اس ناول میں دانش اور تاریخ رچی بسی ہوئی ہے عام طور پر جس شاعری اور جس فکشن میں علم کی بہتات ہو اور اس طرح ہو کہ علم کا مصالحہ اوپر اوپر تیر رہا ہو اندر رچا بسا نہ ہو تو ایسے ’’باورچی‘‘ کا ’’پکوان‘‘ باذوق لوگ رد کرتے ہیں مگر اصغر ندیم سید شاید آپ کو علم نہ ہو شاندار کھانے بنانے کا ماہر تو ہے ہی ’’دشت امکاں‘‘ میں بھی اس کا علم اس کی تحریر میں رچا بسا ہے اور یوں قاری علم و دانش سے بری اس ’’دعوت شیراز ‘‘ سے جی بھر کر سیر ہوتا ہے ۔
اصغر ندیم سید جو ’’آنس‘‘ کے کردار کی صورت میں ہم سے باتیں کرتا ہے اس کی یہ گفتگو مجھے اقبال کے ’’جاوید نامہ‘‘ کی یاد دلا دیتی ہے، خدانخواستہ میرا مقصد ’’جاوید نامہ‘‘ سے اس ناول کا موازنہ ہرگز نہیں ہے کہ خود اصغر ندیم سید بھی اقبال کی عظمت سے واقف ہے ۔’’ جاوید نامہ ‘‘ میں اقبال، آفاقی شخصیات کی ارواح سے ملاقات کرتا ہے اور یوں ان سے کیا گیا مکالمہ ہمیں سننے کو ملتا ہے جبکہ اصغریعنی’’آنس‘‘ جو زمان و مکاں سے ماورا ہو چکا ہے، نے ہماری ملاقاتیں ادیبوں ، شاعروں، فلاسفروں، دانشوروں سے کرائی ہیں اور ان میں سب سے دلچسپ حصہ کم از کم جو مجھے محسوس ہوا وہ اردو اور دوسری زبانوں کے ادیبوں کی گفتگوئوں کا وہ حصہ ہے جس میں وہ اس ’’ریٹنگ‘‘ سے نالاں نظر آتے ہیں، جو اُن کے فن کے حوالے سے مختلف ادوار میں کی گئی ہے چنانچہ ’’آنس‘‘ سے ن م راشد کی ملاقات کا احوال سنیں ۔
پہلے تو میرے کندھوں پر دو بے یارو مدد گار مسکین شاعروں کا بوجھ لاد دیا گیا ایک مجید امجد اور دوسرے میرا جی جہاں میرا نام اکیلے آنا چاہئے تھا وہاں یہ دو میرے دم چھلے بن کر لٹکتے رہے بھئی فیض کو الگ کرکے دیکھتے ہو پوری ترقی پسند تحریک سے ، تو جدید یت کی تحریک میں مجھے سب سے الگ کرکے کیوں نہیں دیکھتے۔
اچھا تو آپ کا مسئلہ فیض احمد فیض ہیں۔
نہیں میں ان کا مسئلہ ہوں وہ جتنے چاہیں فیسٹیول منالیں، میرے وارث نہیں ہیں میری اولاد میں کوئی نہیں ہے لیکن یہ بتا دوں کہ اکیسویں صدی کا وسط اردو شاعری میں میرا زمانہ ہوگا تم مورخ ہو لکھ لو اور بتائو کیا میں فیض سے کئی معنوں میں بڑا شاعر نہیں ہوں موضوعات میں، لحن میں ،عالمی تناظر میں، بہادری میں۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر جدید ڈکشن میں تو پرانی فرسودہ فارسی کی ROMANTICISM میں لپٹا ہوا شاعر ہے فارسی کا جلوہ دیکھنا ہے تو میری جدید فارسی سے لگاوٹ میں دیکھو ۔ اے مورخ، اے زمانوں کے شناور ،اے گزری تہذیبوں کے نوحہ خواں، اے بیتی ہوئی امتوں کی بستیوں کے راز دان…سنو میں راشد بول رہا ہوں فیض نے فارسی سے اکتساب کیا میں نے فارسی میں سانس لی ہے ۔
میں ہی وہ مورخ ہوں جس سے آپ نے خطاب کیا ہے اور آپ کی نظمیں بھی ایک خطاب ہیں لیکن آپ نے اپنا مقدمہ خوب لڑا ہے ۔
ابھی مقدمہ لڑنا باقی ہے اے مور خ سنو، فیض کو پوری ترقی پسند تحریک کی حمایت حاصل تھی مجھے تو کسی تحریک نے آسرا نہ دیا۔
جدیدیت کی تحریک مسٹر راشد،
مگر جدیدیت کو کسی نے مانا کب ! ہر ایرا غیرا جدیدیت میں آ گیا حتیٰ کہ مبارک احمد بھی آگیا۔
تو آپ نے فیض صاحب کو اپنا مخالف کیوں سمجھا؟
اسلئے کہ میں دیکھتا ہوں میری اولاد نہیں رہی تو اس کا مطلب ہے میرا ڈھول نہیں بج سکتا ڈھول تو زمانے کو بجانا چاہئے تھا یہاں اولادیں ڈھول بجا رہی ہیں میں دیکھتا، فیض کی بیٹیاں نہ ہوتیں تو فیض کہاں ہوتا۔
لیکن فیض کی بیٹیاں بھی تو فیض ہی کی تربیت کی وجہ سے ہیں انہوں نے اپنے خاندان کو کتنے جتن سے پالا پوسا، اور تعلیم دی ۔
بے شک ہیں مجھے صرف زمانےسے گلہ ہے، جو میری شاعری کو نہ سمجھ سکا نہ سمجھا سکا۔
تو راشد صاحب ! فیض صاحب کی شاعری کو کس نے سمجھا ہے ! بس عرس پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں جن میں فیض چھپ گیا ہے اور تو اور کاریگر نقاد انہیں انسان دوست اور مزدور دوست کے ساتھ ان خواتین کا ٹانکا لگا دیتے ہیں جو انہیں ہاتھوں اور آنکھوں پر بٹھائے رکھتی تھیں آپ بھی اپنے مستقبل کیلئے ایسی کسی ایک آدھ خاتون کا آسرا ہی لے لیتے اور پھر فیض نے تو اپنے شعری مجموعے کا دیباچہ آپ سے لکھوایا تھا۔
اس لئے کہ فیض عالم آدمی تھا سمجھتا تھا کہ راشد کون ہے ایسے ہی دیباچہ نہیں لکھوایا۔
(جاری ہے)

عطاءالحق قاسمی
کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں