Attaul-Haq-Qasmi 194

جان بچانے کے طریقے!

جان کی حفاظت تو شریعت کی رو سے بھی ضروری ہے چنانچہ ہمیں چاہئے کہ اپنی جان بچانےکےلئے منہ بندرکھیں کیونکہ شہر میں گردو غبار بہت ہے اوریوں ہم گردوغبار سے محفوظ رہیں گے۔ البتہ منہ اگر مکمل طور پر بند رکھنا ممکن نہ ہو تو درمیان میں تھوڑا بہت کھول بھی لیں تاکہ کم سے کم گرد و غبار اندر جائے۔ جین مت کے پیروکار منہ پر کپڑا باندھ کر گھروں سےنکلتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ فضا میں موجود کیڑوں مکوڑوں کو بھی جو بلاوجہ منہ میں چلے جاتے ہیں، ہلاک نہیں کرنا چاہتے۔ حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ وہ ان کی جان بچانےکے علاوہ روزانہ اس پائو بھر مٹی سے محفوظ رہتے ہیں جو منہ کھولنے سے معدوں میں پہنچ کر جم جاتی ہےویسے بھی ’’منہ کھولنے‘‘ سے جس فساد ِ خلق کا اندیشہ ہوتا ہے اس سے بھی انسان بچ جاتا ہے ۔

ویسے میرے نزدیک اگر مزید احتیاط مقصود ہو تو سروں پر بھی کس کر رومال باندھ کر گھر سے نکلنا چاہئے کہ ایک تو ہوا تیزچلنے کی صورت میں سر ننگا نہیں ہوتا اور دوسرے سر میں خاک نہیں پڑتی۔ ہمارے سکھ بھائی تو اس سلسلے میں بہت محتاط ہیں وہ سر بھی باندھ کر رکھتے ہیں، منہ کو بھی مونچھوں اور داڑھی سے ڈھانپے رکھتے ہیں اور کچھا بھی پہنتے ہیں۔ ان سطور میں سر پر دستار باندھنے کامشورہ میں نےاس لئے نہیں دیا کہ ان دنوں کچھ میڈیا پرسنز سروں پر دستار نہیں رہنے دیتے۔ تاہم سر پر ٹوپی ضرور ہونی چاہئے کہ آج کل بہت سے سروں پر اورسر کے اندر بھی کچھ نظر نہیں آتا۔

یہ بھی پڑھیں: -   محمد علی سدپارا

میرے ایک دوست کو ایک دفعہ ’’بال چڑ‘‘ ہو گیا۔ جس کی وجہ سے اس کے سر کے بال گرنا شروع ہوگئے اس نے اپنے ایک ہمسائے کو یہ صورتحال بتائی تو ہمسائے نے اسے ایک طبیب کا پتہ دیااور کہا کہ ان کے پاس جائو کیونکہ میرے ایک عزیز دوست کو بھی ’’بال چڑ‘‘ ہو گیا تھامگر اللہ نے بڑا کرم کیا۔ دوست طبیب کے پاس گیا۔ اس نے میرے دوست سے کہا تم پنج وقت نماز پڑھاکرو اور سر پر ٹوپی رکھاکرو، چنانچہ اس نے ایساہی کیا۔ اس پر میرے دوست نے اپنے ہمسائے سے پوچھا کہ اس سے تمہارے دوست کا ’’بال چڑ‘‘ ٹھیک ہوگیا؟ہمسائے نے کہا کہ اللہ نے بڑا کرم کیا۔ ’’بال چڑ‘‘ تو ٹھیک نہیں ہوا مگر میرا وہ دوست اب پنج وقت نماز پڑھتا ہے اور سر پر ہمیشہ ٹوپی رکھتا ہے۔ مگر سچ پوچھیں تو مجھے ایسے طبیب بالکل اچھے نہیں لگتے جو بدعنوانیوں کا ’’بال چڑ‘‘ تو جوں کا توں رہنے دیں اور سارا زور نماز پڑھنے اور سر پر ٹوپیاں پہنانے میں صرف کردیں۔

خیر یہ بات تو یونہی درمیان میں آگئی۔ میں تو ان سطور میں جان بچانے کےطریقوں پر روشنی ڈال رہا تھا، سو جان بچانے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ کھانا ہمیشہ اعلیٰ دسترخوان پر کھایا جائے۔ چھوٹے موٹے لوگوں کے ساتھ، چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں بیٹھ کر کھاناکھانے سے پیٹ کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں کیونکہ یہ کھانا حفظان صحت کے اصولوں کےمطابق نہیں ہوتا۔ بڑے لوگوں کا ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے سے کم از کم پیٹ کی بیماریاں نہیں ہوتیں۔ صرف دل کی بیماری کا اندیشہ ہے اوربقول اقبال:ؒ

یہ بھی پڑھیں: -   ابو الحسن علی شاذلی کون تھے؟

فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں ہے دل یا شکم؟

مگر اقبالؒ کی سبھی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیناچاہئے میں یوں بھی یہاں جان بچانےکی بات کررہا ہوں۔ روح کی حفاظت کرنے کے طریقے بیان نہیں کر رہا۔ اقبالؒ کی باتوں پر جائیں تو وہ تو:

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ایسی شکم دشمن باتیں بھی کرتا ہے۔ یہ تو شرفا کو بھوکوں مروانے والی باتیں ہیں۔ اس قسم کے رزق سے اگر پرواز میں کوتاہی آتی ہے تو بصورت دیگر ترقی کی ’’پرواز‘‘ ہی ’’کینسل‘‘ ہو جاتی ہے سو جان بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دسترخوان کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیاجائے!

اور اگر بالفرض محال کسی دوست کو میری طرف سے پیش کردہ جان بچانے کےان طریقوں سے اختلاف ہو اوروہ سمجھتا ہو کہ منہ بند رکھنے اور اعلیٰ دسترخوان کاانتخاب کرنے سے جان بچ جاتی ہے مگرایمان خراب ہوتا ہے تو ان کے لئے بھی میری زنبیل میں ایک مشورہ موجود ہے اور وہ یہ کہ جان بھی بچ جائے گی، ایمان بھی محفوظ رہے گا۔ وہ یوں کہ جب دل سے سارے وسوسے، سارے خدشے اور سارے خوف دور ہوجائیں تو پھر کوئی چیز کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ حتیٰ کہ موت بھی منہ دیکھتی رہ جاتی ہے چنانچہ جان بچانے کا سب سے اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ جان بچانے کا خیال دل سے نکال دیاجائے۔ سو جو دوست میرے اس مشورے کو صائب سمجھیں وہ اپنی زبان پر لگے قفل کھول دیں۔ نیز جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو اس رزق پر موت کو ترجیح دیں کہ اب تو عمومی دہشت گردی کے علاوہ مذہبی انتہاپسندی، تمام طبقات میں پائی جانے والی کرپشن اور خوف، فساد خلق کی وجہ سے نہ کی جانے والی بہت سی باتوں پر اپنا ردعمل نہ دیئے جانے کی صورت میں ہم میں سے کسی کی جان بھی نہیں بچےگی۔جان بچانے کا کوئی طریقہ ہمارے کام نہیں آئے گا کیونکہ ایسے حالات میں ’’موسیٰ نسیا موت توں، تے اگے کھڑی موت‘‘ والی صورتحال پیدا ہو جایا کرتی ہے!

یہ بھی پڑھیں: -   یومِ شہدا اور دفاعِ وطن
Attaul-Haq-Qasmi
عطاءالحق قاسمی

کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں