’’بھائی یہ موبائل کتنے کا ہے‘‘
دکان پر جب سیلز مین سے خریدار نے یہ پوچھا تو جواب دیتے وقت اس نے یہی سوچا کہ کیا میرے نصیب میں یہی لکھا ہے کہ میں دکانوں پر 5 ہزار روپے ماہانہ کی ملازمت کرتے رہوں،میری قسمت کب جاگے گی،شام کو ٹیپ بال سے تیز ترین بولنگ کی کوشش کرتے ہوئے وہ اپنی فرسٹریشن نکالنے لگا،کچھ عرصے بعد اس کے ایک دوست نے کہا کہ ’’یار گوجرانوالہ میں کرکٹ ٹرائلز ہیں تم بھی میرے ساتھ چلو، اکیلے فارغ وقت گذارنا دشوار ہو جائے گا‘‘ یوں وہ ساتھ چلا گیا۔
ٹرائلز میں اس نے سوچا باہر بیٹھنے سے اچھا ہے میں بھی بولنگ کر لوں، ٹیپ بال سے تو کھیلتا ہی ہوں آج ہارڈبال سے بھی قسمت آزمائی کرتا ہوں،وہاں اسپیڈ گن لگی تھی ، پہلی ہی گیند اتنی تیزرفتار تھی کہ ایک سلیکٹر کو لگا کہ شاید گیند خراب ہے، اس نے بولر کو دوبارہ گیند کرنے کی ہدایت دی تو وہ پہلی سے بھی تیز تھی، اب سلیکٹرچونکا اس نے اپنے سینئر کو آواز دی کہ ’’سر اس بولر کو آ کر دیکھیں‘‘ انھوں نے بھی ایک گیند کروائی اور 92 کی رفتار دیکھ کر نوجوان سے کہا کہ ’’تم کو منتخب کر لیا گیا ہے‘‘ یہ واقعہ 2017کے لاہور قلندرز پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کا ہے۔
جہاں حارث رئوف کی دریافت ہوئی، 2015 میں جب 50 اوورز کا ورلڈکپ ہوا تب وہ موبائل فون کی دکان پر ملازم تھے، اب 6 سال بعد ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈکپ ہو رہا ہے تو انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف شانداربولنگ سے پاکستان کو فتح دلا دی، ایسے کئی سیلز مین، کسان اور دیگر باصلاحیت نوجوان ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں مگر افسوس یہ ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے، حارث کی یہ خوش قسمتی تھی کہ قلندرز کے ٹرائلز میں وہ آ گئے جہاں عاقب جاوید نے دیکھتے ہی ان سے 10 سال کا معاہدہ کر لیا، اہل خانہ کی مدد کیلیے ماہانہ ایک لاکھ روپے دیے جانے لگے۔
یوں وہ فکرمعاش سے آزاد ہو کر اپنی کرکٹ پر توجہ دینے لگے، اسے اپنے ساتھ رکھا، ٹیلنٹ نکھارنے کے لیے آسٹریلیا بھیجا،پی ایس ایل میں موقع دیا، بگ بیش کیلیے معاہدہ کرانے میں بھی مدد کی،آج وہ نوجوان پاکستان کو میچز جتوا رہا ہے تو اس کا کریڈٹ عاقب جاوید اور قلندرز کو ہی جاتا ہے، عاقب بھائی سے میرا ’’اخبار وطن‘‘ کے زمانے کا تعلق ہے،بطور بولر ان میں جو جارحیت دکھائی دیتی تھی وہ حارث میں بھی موجود ہے،اپنے استاد کی طرح وہ سوئنگ کے فن سے بھی مالامال ہیں،البتہ اسپیڈ کے معاملے میں کافی آگے نکل گئے،مجھے یہ سب باتیں سرکاری ٹی وی پر ٍ میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز اور شعیب اختر کی تلخ کلامی دیکھ کر یاد آئیں، میں نہیں سمجھ پایا کہ کیوں میزبان کو یہ بات بْری لگی کہ شعیب نے قلندرز اور عاقب کو کریڈٹ دیا۔
باقی دونوں میں آف اسکرین جو مسئلہ ہوا اس کا علم نہیں اسی لیے اس تنازع پر میں زیادہ بات نہیں کر رہا، دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کو پہلا میچ جتوانے والے بولر شاہین شاہ آفریدی بھی لاہور قلندرز کے ہی کھلاڑی ہیں، ابتدا میں جب ان کی کارکردگی اچھی نہیں تھی تو ایک دن وہ ٹیم کے مالک سے ملاقات کی خواہش لیے عاقب جاوید کے پاس پہنچ گئے تھے تاکہ معاوضے کی رقم واپس کر سکیں، ان پر مکمل اعتماد کیا گیا تو آج دیکھ لیں کہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے،باقی انڈر 19 کرکٹ تو ہر سال سینکڑوں کھلاڑی کھیلتے ہیں اور زیادہ تر بھولی بسری داستان بن کر رہ جاتے ہیں۔
اصل بات ٹیلنٹ کی تلاش اور اسے نکھارنا ہوتی ہے،اس ملک میں جتنا برا بھلا عاقب جاوید کو کہا جاتا ہے شاید ہی کسی اور پر اتنی تنقید ہوئی ہو، اس کے باوجود ہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتے کہ انھوں نے اور فرنچائز نے ملک کو نیا ٹیلنٹ دیا،آج ڈینی موریسن اور ایلن والکنز جیسے کمنٹیٹرز بھی پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کی تعریف کر رہے ہیں، پی سی بی نے بھی اپنی اکیڈمی کا نام ہائی پرفارمنس سینٹر تو رکھ لیا مگر اس میں نیا ٹیلنٹ تو جا ہی نہیں سکتا، اب رمیز راجہ آئے ہیں تو ان سے امید ہے کہ اس کے دروازے تمام کرکٹرز کے لیے کھول دیں گے۔
مجھے افغانستان سے میچ کے بعد وطن واپس آنا ہے اس لیے آج کوویڈ ٹیسٹ کرانے گیا تھا جو ملک میں داخلے کے لیے لازمی شرط ہے،یو اے ای کی حکومت نے جگہ جگہ اس کی سہولت فراہم کی ہے جہاں صرف 50 درھم (24 سو روپے) میں پی سی آر ٹیسٹ ہو جاتا ہے،البتہ پرائیوٹ اسپتال 130 درھم تک بھی چارج کرتے ہیں، آئی سی سی کی جانب سے میڈیا کانفرنس میں شرکت کا لنک تو مل جاتا ہے لیکن پی سی بی مجھے سوال پوچھنے کا موقع نہیں دیتا اس لیے وقت ضائع کرنے کے بجائے میں بعد میں ویڈیو دیکھ لیتا ہوں۔
یہی آج ثقلین مشتاق کی ورچوئل کانفرنس کے بعد کیا، بورڈ (رمیز راجہ نہیں)نے مجھے واٹس ایپ گروپس سے بھی باہر کیا ہوا ہے اس لیے ساتھیوں سے ہی معلومات مل جاتی ہیں، جو بیچارے برسوں سے غیر اعلانیہ ترجمانوں کا کام کر رہے ہیں ان کی بھی پلیئرز تک رسائی نہیں تو میرے جیسے صحافی تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتے، اب صحافت کرنا آسان نہیں رہا، خیر ہم اپنا کام کرتے رہیں گے،مجھے خوشی ہے کہ نوجوان صحافی بے خوف ہو کر کام کر رہے ہیں۔
خیر اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان ٹیم کی ورلڈکپ سیمی فائنل میں رسائی پر مہر تصدیق اب ثبت ہونے والی ہے، افغانستان آسان حریف نہیں اور ثقلین مشتاق بھی اس حوالے سے کھلاڑیوں کو خبردار کر چکے ہیں،ٹیم کو اپنی کارکردگی کا معیار برقرار رکھنا ہوگا، ویسے گروپ ٹو میں دلچسپ صورتحال بن چکی ہے، نیوزی لینڈ اور بھارت میں سے کوئی ایک یا کسی غیرمتوقع نتیجے کی صورت میں دونوں ہی باہر ہو سکتے ہیں،یو اے ای میں آئی پی ایل کھیلنا بھی دونوں ٹیموں کے کام نہ آیا، البتہ ہماری ٹیم اچھا کھیل رہی ہے ہمیں اسی پر خوش ہونا چاہیے، امید ہے آج افغانستان کو بھی آسانی سے زیر کر لیا جائے گا۔

سلیم خالق
سلیم خالق کی تمام تحاریر ایکسپریس بلا گ سے لی جاتی ہیں. مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں