adnan-khan-kakar 176

بھینس کی ڈیوٹی وہی رہے گی

ایک بھینس کو جب کسی نے اطلاع دی کہ اسے چور کھول کر لے جا رہے ہیں تو اس نے درویشانہ انداز میں نشاندہی کی کہ نیا مالک بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو پرانا کرتا ہے اس لیے اسے کوئی ٹینشن نہیں ہے۔

جب تک پاکستانی عوام کو حکومت میں اختیار نہیں ملتا تو بہتر ہے کہ وہ بھی بھینس جیسا درویشانہ طرز عمل اختیار کریں اور سیاسی بحرانوں پر جذباتی ہونے کی بجائے سکون سے پاپ کارن کا لفافہ ہاتھ میں پکڑیں اور دیکھیں کہ ان کا مالک اب کون بنتا ہے۔

گلہ مارشل لا سے نہیں ان سیاستدانوں سے ہے جو اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ اور ان سیاستدانوں سے ہے جو بظاہر عوام کے ووٹوں سے حکومت بناتے ہیں لیکن عوام کی فلاح کو اپنی سیاست کا مقصد نہیں بناتے۔ ان کا مقصد صرف اپنا الو سیدھا کرنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنے حامیوں کو بہترین الو بناتے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ کوئی پاکستانی وزیراعظم ملک کو فلاحی ریاست بنانے کی کوشش نہیں کرتا؟ کیوں ہمارے حکمران عوام کو جدید زمانے کی تعلیم دینے کی بجائے لازمی مضامین کا رٹو طوطا بنانے کے قائل ہیں؟ رٹو طوطے منطقی انداز اپنا برا بھلا سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں اور جو مالک کہے وہی راگ الاپتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کووڈ کے دو برسوں میں اگر لازمی مضامین کا امتحان نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ سمجھا جائے کہ اختیاری مضامین ہی بہت کافی ہیں تو کووڈ سے ہٹ کر کیوں لازمی مضامین کا بوجھ طلبا پر لادا جاتا ہے؟ کیا ایسا محض رٹو نسل تیار کرنے کے لیے نہیں کیا جاتا؟

یہ بھی پڑھیں: -   پہلے حریف کو سمجھو ، پھر کچھ سوچو ( حصہ دوم )

مسئلہ صرف یہ ہے کہ عوام اگر سوچنے سمجھنے لگے تو وہ حکمرانوں سے جواب بھی طلب کریں گے۔ وہ نمائشی نعروں کی بجائے عملی اقدامات پر مصر ہوں گے۔ پوچھیں گے کہ ہمارا ٹیکس کہاں گیا اور کس پر خرچ ہوا؟ کیا عوام پر خرچ ہوا یا پھر شاہ خرچی کی نذر ہوا؟ قانون بھی یوں چند گھنٹوں میں پاس نہیں ہوں گے۔ یہ بھِی پوچھیں گے کہ پولیس کی اتنی بڑی تعداد حکمرانوں کے تحفظ کے لیے لگا دی گئی ہے، ان کے تحفظ کو عوام کے تحفظ پر ترجیح کیوں دی گئی ہے؟ یعنی پروٹوکول کے لمبے قافلوں کا نکلنا مشکل کر دیں گے۔ ملکی سلامتی کی پالیسی پر بھی سوال اٹھا دیں گے اور کسی نے ایسا کرنے پر انہیں اٹھا لیا تو اسے بھی ناحق دق کریں گے۔ یعنی بالکل ہی غدار ہو جائیں گے۔

عوام کی حکومت میں شرکت کا پہلا مرحلہ بلدیاتی ادارے ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے وہ اپنے گلی محلے کے گٹر اور سڑک بنوا سکتے ہیں جو ان بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی میں ممبر قومی اسمبلی کا استحقاق بن جاتے ہیں۔ پولیس تنگ کرے تو اس کا علاج بھی وہ مقامی عدالتوں اور مقامی حکومت سے اپنا قانونی حق مانگ کر کرتے ہیں اور ایم این اے کی منت خوشامد کے محتاج نہیں رہتے۔ ملازمتیں بھی سیاسی کوٹے کی بجائے میرٹ پر ملتی ہیں۔ یعنی ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی محتاجی سے آزاد ہو جاتے ہیں۔

اور ایسا ہوا تو پھر سیاست میں دولت مند کی بجائے عام آدمی کی شرکت بھی ممکن ہو سکے گی۔ ایک غریب یا مڈل کلاسیا بھی سیاسی پارٹی میں میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہوا لیڈر شپ تک پہنچ پائے گا۔ یعنی موروثی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ موروثی سیاست اگر دوسروں کا حق مار کر نہ کی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن اگر موروثیت کی بنیاد پر سیاسی پارٹی کو خاندانی پارٹی بنا دیا جائے تو کچھ بری بات ہے۔ اور ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب عوام منطقی انداز میں سوچنے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور کارکردگی کی بجائے اندھی عقیدت کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: -   کیا مریم نواز خاتون نہیں؟

لیکن یہ سب اختیار عوام کو دے دیا تو پھر ہمارے حکمرانوں کو پاکستان میں اپنی ظاہری یا باطنی حکومت قائم کرنے کا فائدہ کیا ہو گا؟ حکومت کا مزا تو ہے ہی اس وقت جب بندہ بادشاہی کرے۔ یعنی حکمران کی اپنی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں، خواہ اس مقصد کے حصول کی خاطر عوام کا سر کڑاہی میں ڈالنا پڑے۔

تو جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا، کوئی دستخط ہوں یا نہ ہوں، وزیراعظم یہی رہے یا کوئی نیا آئے، بھینس کی ڈیوٹی وہی رہے گی، اس لیے پریشان ہونے کی بجائے پاپ کارن کا لفافہ پکڑیں اور چلتی ہوئی فلم سے لطف اندوز ہوں۔ ہاں کبھی الیکشن آ گیا تو خانہ پری کے لیے کم تر برائی منتخب کرنے والے اصول کے تحت ووٹ ضرور ڈالیں اور فارغ وقت ہو تو آر ٹی ایس کے نہ بیٹھنے یا دھند نہ چھانے کی دعا مانگ لیں۔

adnan-khan-kakar
عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں