PSL 6 Preparations 180

فرنچائزز اور بورڈ کا ’’وقتی‘‘ سیزفائر

’’آپ کاروباری شخصیات ہیں، جہاں نفع نظر نہ آئے اس کام میں تو ہاتھ ہی نہیں ڈالتے،پھر پی ایس ایل میں ایسا کیا دیکھا کہ آنکھ بند کر کے معاہدے پر دستخط کر دیے اور اب سر پیٹ رہے ہیں‘‘
کچھ عرصے پہلے میں ایک ایسی جگہ موجود تھا جہاں کئی فرنچائزز کے مالکان بھی تھے،بعض نے مجھے دیکھ کر کہا کہ ’’ہماری اکثر میٹنگز آپ کے نام سے ہی شروع ہوتی ہیں کہ اسے ساری خبریں کون دے دیتا ہے‘‘،اپنی تعریف سن کر میں نے تھوڑی لبرٹی لی اور یہ سوال داغ دیا۔

اس پر چند لمحوں کیلیے خاموشی چھا گئی، پھر ایک صاحب نے مجھے گھورا جیسے کہہ رہے ہوں کہ ’’ذرا سی تعریف کیا کر دی یہ تو فری ہی ہو گیا‘‘، مگر پھر دوسرے اونر نے جواب دیا کہ ’’آپ کی بات درست ہے، دراصل اس وقت نجم (سیٹھی) نے ہمیں سبز باغ دکھائے تھے کہ لیگ جب پاکستان آئے گی تو اتنا پیسہ کماؤ گے کہ حساب رکھنا مشکل ہوگا، ابھی معاہدے پر دستخط کر دو ایک سال بعد تبدیل کر دیں گے،البتہ سب سے بڑی بات ملک کی خدمت کا جذبہ تھا ہم نے سوچاکہ پاکستان کی لیگ ہو رہی ہے اس کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں‘‘۔

پھر چند ماہ قبل میں نے جب سیٹھی صاحب سے فرنچائزز سے کیے گئے وعدوں اور نقصانات کا پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ ’’ایسی کوئی بات نہیں تھی، ٹیم مالکان کوئی بچے نہیں ہیں کہ ایسے ہی معاہدے پر دستخط کر دیے، انھوں نے اچھی طرح سوچ سمجھ کر یہ کیا ہوگا،جب تک میں چیئرمین رہا کوئی مسئلہ نہ ہوا میرے جانے کے بعد ہی لیگ میں مسائل آنا شروع ہوئے‘‘۔ ویسے واقعی یہ بات درست تھی ہر سال ہی پی ایس ایل میں تنازعات سامنے آتے رہے، گذشتہ برس تو حد ہی ہو گئی جب مالکان نے بورڈکے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا۔

یہ بھی پڑھیں: -   سفید بال کالے اور بینائی بھی بحال

اس کے بعد احسان مانی نے عدالتی ہدایت پر مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی،فنانشل ماڈل کی تبدیلی میں چاہے پرانے بورڈ حکام ہوں یا موجودہ سب کو ایک ہی خدشہ لگا رہا کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد معاملہ نیب یا ایف آئی اے کے پاس جائے گا اور ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، معاملہ قومی اسمبلی میں لے جانے کی کوشش ناکام رہی، وزیر اعظم نے کسی سابق جج سے رائے لینے کا کہا، معاملہ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کے سپرد کیا گیا۔

انھوں نے رپورٹ بنا کر پی سی بی کو پیش کر دی لیکن اسے فرنچائزز کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا،شاید مالکان کو اب افسوس ہوتا ہو کہ انھوں نے احسان مانی کی پیشکش کیوں قبول نہیں کی تھی،اب ایک بار پھر ان کے پاس عدالت جانے کا آپشن موجود تھا، وکلا سے مشاورت بھی ہوئی، ثالث سے رجوع کرنے پر بھی بات ہوئی، مگر اب فرنچائزز کا ماضی جیسا اتحاد نہیں رہا، ایک اونر بیرون ملک سکون کی زندگی گذار رہے ہیں، ان کا کیلکولیٹر جو حساب دکھاتا ہے اس میں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے۔

ایک اور اونر اپنے ایک نئے کاروبار کی وجہ سے اب پی سی بی سے براہ راست الجھنا افورڈ نہیں کر سکتے،فرنچائزز کے مالی معاملات بھی مسئلہ ہیں،کم از کم تین ٹیموں کو تو اب نوٹ نظر آ رہے ہیں،اسی کے ساتھ سب سے بڑی بات رمیز راجہ کا اسٹائل ہے، ان کی شخصیت میں بھی عمران خان کا فراہم کردہ اعتماد جھلک رہا ہے، وہ اونرز کو ری بڈنگ کی پیشکش بھی کر چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: -   برطانوی گلوکار ٹام پارکر انتقال کرگئے

مزید وقت دینے کو تیار بھی نہیں تھے، اصل مسئلہ یہ تھا کہ کورٹ کیس کی صورت میں ساتویں ایڈیشن کو نقصان پہنچ جاتا، ٹیم مالکان کی میٹنگ میں یہ بات ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ ’’ویسے ہی نیوزی لینڈ اور انگلینڈ سے سیریز منسوخ ہو گئیں، اب اگر پی ایس ایل بھی نہ ہوئی تو ملکی کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان ہو جائے گا،محاذ آرائی سے بچنے کیلیے بورڈ کی پیشکش مان لیتے ہیں، موجودہ حکام کو کون سا ہمیشہ رہنا ہے، جب مستقبل میں کوئی تبدیلی آئی تو دوبارہ اپنا مسئلہ پیش کر دیں گے‘‘۔

میں جانتا ہوں کہ فرنچائزز بھاری مالی خسارے کا شکار ہیں، ایسے میں ان کا ایک بار پھر ملکی مفاد کو ترجیح دینا قابل تعریف اقدام ہے،پی سی بی کو تو فرنچائزز سے صرف فیس کی مد میں ہی سالانہ 15.65 ملین ڈالر مل جاتے ہیں مگر ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا، ماڈل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سستی اور مہنگی سب ٹیموں کو یکساں منافع ملتا ہے، جب ٹیمیں فروخت ہوئیں تب فیس کیلیے ڈالر کا ریٹ کچھ اور تھا اب تو ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ ریٹ ہو چکا۔

نئے ماڈل میں فرنچائزز کواخراجات منہا کرنے کے بعد سینٹرل پول سے95 فیصد حصہ دیا جائے گا، فیس کے لیے ڈالر کا موجودہ ریٹ فکسڈہوگا،آئندہ چار سال بعد تمام فرنچائزز کی مارکیٹ ویلیو کاکسی غیرجانبدار پارٹی سے جائزہ لینے کے بعد جو رقم سامنے آئے فیس میں اس کا 25 فیصد اضافہ کردیا جائے گا،اس سے جس نے اپنی ٹیم کو بڑا برانڈ بنایا وہ زیادہ نقصان میں رہے گا، ہر سال ایونٹ سے 2 ماہ قبل آدھی فیس دینا ہوگی،25 فیصد درمیان اور باقی 25 فیصد ٹورنامنٹ ختم ہونے سے پہلے دینا لازمی ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: -   وسیم خان کی وکٹ بھی گر گئی

اس ماڈل کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار براڈ کاسٹنگ اور ٹائٹل اسپانسر شپ کے نئے معاہدوں پر ہوگا،اگر پی سی بی نے پہلے سے زیادہ بڑی ڈیل کر لی تو سینٹرل پول کی رقم میں اضافہ ہو جائے گا جس سے اونرز کی کچھ تسلی ہو گی ورنہ وہ بدستور آنسو بہاتے رہیں گے۔

ان مالکان نے اس وقت ٹیموں کو خریدا جب زیادہ خریدار دستیاب نہ تھے، بورڈ بھی اس لیے ڈرتا ہے کہ پہلے ایڈیشن کے بعد فرنچائزز کو جو بونس دیا گیا وہ معاملہ اب تک گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے، آڈٹ رپورٹ میں اس پر اعتراض سامنے آیا تھا، اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے ایسا ماڈل بنایا گیا جس پر زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، البتہ یہ مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوا،مستقبل میں دوبارہ مشکلات اٹھ کھڑی ہوں گی،خیر فوری طور پر تو بڑا تنازع ٹل گیا جس پر اطمینان کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔

Saleem Khaliq
سلیم خالق

سلیم خالق کی تمام تحاریر ایکسپریس بلا گ سے لی جاتی ہیں. مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں