adnan-khan-kakar 158

روحانی ہستیاں اور شمشیر زن سورما

کہا جاتا ہے کہ جب منگولوں نے قونیہ پر حملہ کیا تو اس زمانے کے رواج کے مطابق قونیائی فوجوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ بڑے زبردست ظالم سے پالا پڑا ہے۔ اس لیے انہوں نے گھوڑوں کو تیار کر لیا کہ بس اب دڑکی لگانا برحق ہے۔

ایسے میں شہری ایک ہی کام کرتے ہیں۔ روحانی ہستیوں کے دامن میں پناہ لیتے ہیں۔ انہوں نے فٹ سے ایک درویش پکڑ لیا کہ حضت اب آپ ہی کچھ کریں تو کریں کہ منگول دنیاوی اسباب سے نہیں ٹلتے، روحانی ہی درکار ہیں۔ کوئی معجزہ ہو جائے تو بچت ہو۔

درویش ایک ٹیلے پر مصلا بچھا کر بیٹھ گیا۔ منگول تیر اندازوں نے درویش کو جاسوس سمجھ کر تیروں سے حملہ کرنے کی کوشش کی مگر کمان کھینچنے سے قاصر رہے۔ پھر شہسواروں نے یلغار کی مگر گھوڑوں کے قدم زمین نے پکڑ لیے۔

منگول سپہ سالار جو ہمیشہ فاتح رہا تھا، تاریخ میں امر ہو گیا، بے انتہا مشہور تھا مگر اب اس کا نام یاد نہیں آ رہا، غالباً بیچو خان تھا، غضب ناک ہوا اور خود حملہ کرنے بڑھا۔ وہ اچوک تیر انداز تھا۔ پہلے اس نے تیر چلائے۔ سب نشانے چوک گئے۔ پھر اس نے کمان پھینکی اور تلوار لہراتا ہوا حملہ کرنے بڑھا مگر اس کے پیروں نے جنبش کرنے سے انکار کر دیا۔ سپہ سالار فوراً سمجھ گیا کہ تیر تلوار کا مقابلہ روحانیت سے ہے۔ فوراً معافی مانگنے پر اتر آیا۔ گھوڑوں کے قدم زمین نے چھوڑ دیے اور منگولوں نے قونیہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اور یوں مولانا رومی کے طفیل قونیہ بچ گیا۔

یہ بھی پڑھیں: -   مولانا وحید الدین خاں اور دلیپ کمار

یوں روحانیت کے مقابلے میں فوج ناکام ہوئی۔

ایک اور روایت بھی بیان کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیا سے سلطان غیاث الدین تغلق بہت ناراض ہوا۔ اس نے پیام بھیجا کہ میں ابھی جھٹ سے بنگالہ فتح کر کے آتا ہوں، میری واپسی تک دلی سے نکل جائیں ورنہ آپ کا سر ہو گا اور میری شمشیر۔ محبوب الہی متبسم ہوئے اور فرمایا کہ ہنوز دلی دور است۔ پھر وقفے وقفے سے اطلاعات آتی رہیں کہ سلطان واپس آ رہا ہے، دلی سے اتنا دور رہ گیا ہے۔ بس اب تو ایک منزل ہی رہ گئی ہے۔ درویش نے ہر اطلاع پر فرمایا کہ ہنوز دلی دور است۔ بالآخر جب سلطان تغلق دلی سے ایک دن دور رہ گیا تو اس نے ایک قصر میں قیام کیا۔ روحانیت کا کرشمہ بجلی کی مانند گرا اور قصر زمین بوس ہوا۔ سلطان دب کر مر گیا۔ درویش نے واپس آ کر گردن اتارنے کے خواہاں شمشیر زن کو درست ہی فرمایا تھا کہ ہنوز دلی دور است۔

مگر صاحب، یہ تو قصے ہیں۔ روایات ہیں۔ حکایات ہیں۔ ورنہ اب تو روحانی ہستیاں فوجوں کا مقابلہ کرنے پر آئیں تو کہاں بچتی ہیں۔ اب نہ ویسے درویش رہے نہ ویسے منگول رہے۔ فتح شمشیر ابن شمشیر والے نادر شاہ درانی ہی کی ہوتی ہے۔ اب تو سپہ سالار بنگالے سے دہلی آنے کی زحمت نہیں اٹھاتا۔ وہیں سے سائبر کبوتر بھیجتا ہے اور ایسی برق لہراتی ہے کہ درویش کا کام تمام ہو جاتا ہے۔ سب روحانیت عین غین ہو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: -   رنگ روڈ کے نئے انکشافات

منگولوں کا تو پتہ نہیں مگر تغلق کے باب میں ابن بطوطہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اسے شہزادہ فخر الملک جونا خان کے حکم پر خفیہ والوں نے سازش کے تحت قتل کیا۔

کہتے ہیں کہ جونا خان نے تین دن میں لکڑی کا ایک محل بنایا تھا جس میں غیاث الدین تغلق کو افتتاح کے لیے مدعو کیا گیا اور پھر اس میں ہاتھیوں کا تماشا دکھانے کا بندوبست کیا گیا۔ ہاتھیوں کے لڑائی جھگڑے سے محل زمین بوس ہو گیا اور غیاث الدین تغلق اور اس کا دوسرا بیٹا شہزادہ محمود خان تو دب کر مر گئے لیکن خدا کی قدرت کہ محل بنانے والا میزبان جونا خان بچ گیا اور مجبوراً اس نے خود خالی تخت سنبھال کر سلطانی شروع کر دی۔

اس لیے ہمارا گمان یہ ہے کہ اب زمانہ ایسا آ گیا ہے کہ روحانی ہستیاں چاہیں جتنا عین غین کریں، جو بھی استخارہ کریں، تعویذ لکھیں یا عملیات کریں، پیچیدہ بازیوں میں معجزہ شمشیر زن سورما ہی دکھاتے ہے اور ان کا چنیدہ امیدوار ہی کرسی نشین ہوتا ہے۔

adnan-khan-kakar
عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں