waseemkhan 167

وسیم خان کی وکٹ بھی گر گئی

’’صاحب آ گئے صاحب آگئے‘‘

اسٹیڈیم کے دروازے پر ہلچل مچ گئی، ایک سینئر پی سی بی آفیشل عمر رسیدہ ہونے کے باوجود تقریباً بھاگتے ہوئے گئے اور کار کا دروازہ کھولا، اندر سے صاحب برآمد ہوئے اور وہ بڑی شان سے چلتے ہوئے اندر داخل ہوئے، گارڈز نے سلام کیا تو سر ہلا کر جواب دیا۔

منظر تبدیل ہو گیا، صاحب کی جگہ نئے صاحب آگئے، وہ پھر میچ دیکھنے گئے، اسٹیڈیم سے خاصے فاصلے پر گاڑی پارک کی، پیدل چلتے ہوئے اندر آئے، نہ گیٹ پر کوئی ہلچل مچی نہ کسی نے آگے بڑھ کر سلام کیا، نارمل انداز سے اندر گئے۔

پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے، یہاں کرسی کو سلام کیا جاتا ہے، خصوصاً پی سی بی میں تو ایسی ہی روایات برسوں سے چلی آ رہی ہیں، قذافی اسٹیڈیم میں ایک طلسماتی کشش ہے، بڑے بڑے لوگ یہاں آ کر تبدیل ہو جاتے ہیں پھرباہر جا کر ان کو اپنی اصلیت پتا چلتی ہے، آپ دنیا کے کسی بھی ملک سے آئیں پاکستان کا پانی کچھ دن پی کر پاکستانیوں کے رنگ میں ہی رنگ جاتے ہیں، وسیم خان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، انھیں پاکستان کرکٹ کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا۔

ایک ایسا شخص جو کرکٹ کی محبت میں اپنا گھر چھوڑ کر اتنی دور آگیا،یہ اور بات ہے کہ اس کیلیے انھیں پی سی بی کی تاریخ میں سب سے زیادہ 30سے35 لاکھ روپے ماہوار تنخواہ اور دیگر سہولتیں دی گئیں،تنخواہ ان کی چڑ تھی، جو صحافی اس کا ذکر کرتا وہ ناراض ہو جاتے، انھوں نے ’’گڈ جرنلسٹ اور بیڈ جرنلسٹ‘‘ کی ایک فہرست بھی بنائی ہوئی تھی جس کا اکثر تذکرہ کرتے رہتے، وسیم خان کو احسان مانی پی سی بی میں لے کر آئے لیکن حیران کن طور پر وہ ان کے ہی خلاف ہو گئے اور نجی محفلوں میں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ان کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔

یہ بھی پڑھیں: -   بھارتی اداکارہ شاہد آفریدی کی ’نرس‘ بننے کی خواہشمند

ڈومیسٹک کرکٹ نظام میں تبدیلی ظاہر ہے وزیر اعظم عمران خان کے کہنے پر ہوئی تھی مگر اس میں وسیم خان پیش پیش رہے،ہزاروں کرکٹرز بے روزگار ہوئے، بعد میں کچھ فیصد کو ہی نوکریاں ملیں،ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کو ہٹانے کا فیصلہ بھی کہیں اور ہوا لیکن وسیم سامنے آئے،اس سے ایسا لگا کہ شاید ان کو استعمال کیا گیا،جس وقت وسیم خان نے مصباح الحق کو ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر بنایا تب سب ہی تنقید کر رہے تھے لیکن انھوں نے اسے ملکی کرکٹ کا مقدر بدل دینے والا فیصلہ قرار دیا، پھر انہی مصباح سے خود پہلے ایک عہدہ واپس لیا اور بعد میں بطور کوچ متبادل بھی تلاش کرتے رہے۔

ان کے چاہنے والے کہتے ہیں کہ وسیم خان ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ واپس لے کر آئے لیکن یہ سلسلہ تو نجم سیٹھی اور شہریار خان کے دور میں ہی شروع ہوچکا تھا جسے احسان مانی اور وسیم نے آگے بڑھایا، ایک تاثر دیا جاتا رہا کہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیمیں وسیم خان کے ذاتی تعلقات کی وجہ سے آ رہی ہیں،بعد میں دورے ختم ہوئے تو سب خاموش ہو گئے۔

ان کے کہنے پر ہی کوویڈ کے دنوں میں پاکستانی کرکٹرز اپنی جان خطرے میں ڈال کر2بار انگلینڈ گئے، نیوزی لینڈ کا بھی دورہ کیا،مگر اس سے کیا فائدہ ہوا؟ مسلسل 2 برس پی ایس ایل کو درمیان میں روکنا پڑا،اس میں سی ای او کا بھی اہم کردار تھا جو بائیو ببل کے معاملے میں سستی دکھا گئے، ان کے دور میں فرنچائزز کے پی سی بی سے تعلقات بھی خراب ہوئے، معاملہ عدالت تک گیا،بعض اونرزکو یہ بھی شکایت تھی کہ نجی طور پر وہ انھیں ’’اقدامات‘‘ کی راہ دکھاتے رہے مگر میٹنگ میں رویہ مختلف ہوتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: -   رشتوں کی اہمیت سمجھیں

مانی اور وسیم کے دور میں ملک سے کلب کرکٹ کا نام ونشان مٹ گیا اور نیا ٹیلنٹ ملنا کم ہوا،کسی ٹورنامنٹ کو کرانے کی اجازت لینے سے آسان امریکی ویزے کا حصول تھا، میں اگر بہت کوشش بھی کرؤں تو سی ای او کا کوئی ایسا کارنامہ یاد نہیں آتا کہ انھیں خراج تحسین ادا کیا جائے، رمیز راجہ کے آنے پر ان کی کرسی ویسے ہی ہلنے لگی تھی، ایک میان میں د وتلواریں نہیں رہ سکتیں،رمیز سابق کپتان رہ چکے، بطور کمنٹیٹر بھی وہ اچھی ساکھ کے حامل ہیں، پاکستان سمیت دنیا بھر کے کرکٹرز، بورڈز اور آئی سی سی میں انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ کرکٹ کے معاملات خود سنبھال سکتے ہیں۔

انھیں وسیم کی کوئی ضرورت نہیں تھی، جب رمیز نے پہلی پریس کانفرنس کی تو صرف ایک کرسی اپنے لیے لگوائی، جب سی ای او کے زیادہ اختیارات کا سوال ہوا تو کہا کہ ’’اگر وسیم زیادہ بااختیار ہوتا تو میری جگہ بیٹھا ہوتا‘‘ پہلے قذافی اسٹیڈیم میں کوئی پودا بھی لگتا تو پریس ریلیز آتی کہ ’’پودا لگا اس سے بہت فائدہ ہوگا، اس موقع پر وسیم خان نے کہا فلاں فلاں‘‘ ہر پریس کانفرنس میں وہی ہوتے، آئی سی سی میٹنگز میں بھی جاتے،کوویڈ میں ’’ورک فرام برطانیہ ہوم‘‘ کی پالیسی سے بھی انھوں نے خوب فائدہ اٹھایا، مگر رمیز کے آنے سے وہ پس منظر میں چلے گئے۔

سیریز منسوخ ہوئیں اور بھی بڑے فیصلے ہوئے مگر سی ای او کہیں نظر نہیں آئے، وہ پی سی بی میں بادشاہ کی طرح رہے، انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ چار ماہ بعد جب معاہدہ ختم ہو گا تو وطن واپس جانا ہی پڑے گا، ایسے میں یہی مناسب سمجھا کہ ابھی عہدہ چھوڑ دیں، ایک کروڑ سے زائد روپے کا ہی نقصان ہوگا، مگر اب ان کا پروفائل تو بن چکا ہے کوئی بھی اچھی ملازمت دوبارہ مل جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: -   کرپٹ معاشرہ

البتہ سوال یہ سامنے آتا ہے کہ انھوں نے پاکستان کرکٹ کو کیا فائدہ پہنچایا؟ امپورٹیڈ سی ای او سے ہمیں کیا ملا، جب وہ آئے تھے تو ٹیم کی رینکنگ بہتر کرنے کے دعوے کیے تھے، آپ دیکھ لیں کہ بہتری ہوئی یا ٹیم مزید نیچے آئی،اب کیا ان کا کوئی احتساب ہوگا یا وہ سامان پیک کر کے انگلینڈ واپس چلے جائیں گے،شاید ایسا ہی ہو یہاں آج تک کبھی کسی کا احتساب ہوا ہے کیا؟

Saleem Khaliq
سلیم خالق

سلیم خالق کی تمام تحاریر ایکسپریس بلا گ سے لی جاتی ہیں. مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں