آج کل غیر جانبدار ہونا حماقت ہے۔ بندہ کسی ایک سائیڈ کا حامی بنے تو بس دوسری سائیڈ سے ہی جوتے کھاتا ہے اور حامی سائیڈ سے داد وصول کرتا ہے۔ خود کو معتدل کہلوانے کے شوقین بندے کو دونوں اطراف والے مل کر جوتے مارتے ہیں۔ یوں وہ نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔ چاہے بندہ جتنا بھی غیر جانبدار ہو، یا تو اسے جانبدار سمجھا جاتا ہے یا احمق۔
اس لیے سب سے پہلے تمام دستیاب آپشن دیکھیں۔ مقبول افراد یا جماعتوں میں جو سب سے زیادہ احمق لگے اس کی کھل کر حمایت شروع کر دیں۔ فائدہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ ایسے فریق کے حامی بھی بھیڈو (مینڈھے ) ہوتے ہیں اور دماغ استعمال کیے بغیر حمایت اور مخالفت کرتے ہیں۔ عقل ہوتی تو وہ اس احمق کے مداح کیوں ہوتے؟ یوں وہ آپ کی اندھی حمایت بھی کریں گے اور کسی مخالف نے آپ پر اعتراض کرنے کی جرات کی یا آپ کی دانش کا پول کھولا، تو وہ اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔
روایت ہے کہ ایک ایسی ہی جماعت کے اجتماع میں اعلان کیا گیا کہ ایک انعامی مقابلہ ہو گا جس میں جیتنے والے کو وزیر بنایا جائے گا۔ ایک کارکن کا نام قرعہ اندازی میں نکل آیا اور مقابلہ شروع ہوا۔ میزبان نے پوچھا کہ ”ستاون جمع تیرہ کتنے ہوتے ہیں؟“ کارکن نے جواب دیا اٹھارہ۔ یہ سن کر میزبان نے نفی میں سر ہلایا تو مجمع چیخ اٹھا ”ایک چانس اور دو“ ۔ میزبان نے پوچھا ”دس جمع بیس کتنے ہوتے ہیں؟“ کارکن نے کہا ”ساٹھ“ ۔ میزبان نے نفی میں سر ہلایا تو مجمع چلایا ”ایک چانس اور دو“ ۔ میزبان نے پبلک ڈیمانڈ دیکھتے ہوئے پوچھا ”دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں؟“ کارکن بولا ”چار“ ۔ مجمع بے ساختہ چیخ اٹھا ”ایک چانس اور دو“ ۔
اب کے میزبان نے پوچھا ”ایک جمع ایک کتنا ہوتا ہے؟“ کارکن نے جواب دیا ”پندرہ“ ۔ اس سے پہلے کہ مجمع کچھ بولتا میزبان خوشی سے چلایا ”جواب درست ہوا“ اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
تو صاحبو، اس روایت سے آپ کو ہمارے موقف کی صداقت کا یقین ہو جانا چاہیے۔ حامی ایسے اچھے ہوں تو ایک اور ایک پندرہ بھی قرار پا سکتا ہے۔ مزید فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو اپنا دماغ استعمال کرنے یا حقائق وغیرہ جاننے کی محتاجی نہیں رہتی۔ جو آپ کہہ دیں وہی حقیقت ہے، اور اگر آپ کے لیڈر نے کچھ کہہ دیا ہے تو وہ ایک ناقابل تردید آفاقی حقیقت ہے جسے جھٹلانے والا یا تو احمق ہو گا یا بکا ہوا۔
ہاں اگر اتنی فین فالوونگ دیکھ کر بھی آپ کا دماغ کبھی کبھار کام کرنے لگے تو آپ خود کو تسلی دے سکتے ہیں کہ آپ تو اصل میں وہ وکیل صفائی ہیں جسے انگریزی میں ڈیولز ایڈووکیٹ یعنی شیطان کا وکیل کہتے ہیں۔ اس کا کام ہی غلط موقف کو درست ثابت کرنا ہوتا ہے۔
تو چھوڑیں یہ حق سچ اور عقل وقل۔ دماغ بند کریں اور کمپیوٹر کھولیں اور کوئی اچھی سی جماعت منتخب کر لیں اور شیطان کے وکیل لگ جائیں۔ آپ کو ہماری بات پر یقین نہیں تو کسی ایسے مشہور صحافی یا اینکر کی وال ذرا توجہ سے دیکھ لیں جو خود کو غیر جانبدار یا معتدل کہلوانے کا خواہاں ہو اور دعویٰ کرتا ہو کہ وہ ایشو ٹو ایشو کسی کی حمایت یا مخالفت کرتا ہے، اور پھر بیران ہوا پھرتا ہو۔ آپ ایشو پر حمایت کی صورت میں بھی اس کی خوب خاطر ہوتے دیکھیں گے اور مخالفت پر خوب تواضع۔

عدنان خان کاکڑ
عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.