’’وقار بھائی سنا ہے آپ پی سی بی سے ناراض ہیں اور جلد عہدہ چھوڑ دیں گے‘‘
چند دن قبل ہی میں نے سابق بولنگ کوچ سے جب فون پر یہ بات پوچھی تو انھوں نے کھل کر تو کچھ نہیں کہا مگر واضح طور پر بعض معاملات سے ناخوش دکھائی دیے، ہیڈ کوچ مصباح الحق کے قریبی ذرائع بھی یہی کہہ رہے تھے کہ انھیں جلد گھر بھیج دیا جائے گا یا وہ خود چلے جائیں گے۔
بڑے اداروں میں جب کسی اعلیٰ آفیشل کو فارغ کیا جاتا ہے تواستعفیٰ لے کر ’’خدمات‘‘ یاد دلانے والا پریس ریلیز سامنے آتا ہے، پی سی بی چونکہ متواتر ایسا کرتا ہے لہذا اسے تو تیار شدہ ڈرافٹ میں سے بس نام ہی تبدیل کرنا پڑتا ہوگا،ورلڈکپ سے ایک ماہ قبل کوچز کا استعفیٰ کرکٹ سے وابستہ شخصیات کیلیے بڑی حیرت کا باعث بنا، البتہ مجھے اس پر زیادہ حیرانی نہیں ہوئی، لوگ سمجھ رہے ہیں کہ شاید صرف رمیز راجہ ہی تبدیلی چاہتے تھے حالانکہ اس حوالے سے کام کا آغاز تو احسان مانی کے دور میں ہی ہو چکا تھا، جب پاکستانی ٹیم کورواں سال انگلینڈ میں شکست ہوئی توکوچز کو ہٹانے کے کام میں تیزی آ گئی۔
اینڈی فلاور سے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے فرنچائز کرکٹ کی مصروفیات کے سبب معذرت کر لی، ایسے میں وسیم خان نے اپنے واقف سابق انگلش کوچ پیٹر مورز سے بات چیت شروع کر دی، پھر حالات نے پلٹا کھایا اور چیئرمین پی سی بی ہی عہدے پر برقرار نہ رہے، رمیز بھی مصباح اور وقار کے حق میں نہیں تھے، دونوں نے نوشتہ دیوار بھی پڑھ لیا تھا، جب ورلڈکپ اسکواڈ کے حوالے سے سابق ہیڈ کوچ سے کوئی مشاورت نہ ہوئی تو انھوں نے بہتر یہی سمجھا کہ اب عزت اسی میں ہے کہ خود ہی عہدہ چھوڑ دیا جائے۔
وقار یونس کو بھی ’’تبدیلی‘‘ سے آگاہ کرتے ہوئے استعفیٰ لے لیا گیا، مصباح کے بْرے دن تو تب ہی شروع گئے تھے جب وہ محمد حفیظ اور اظہر علی کے ہمراہ ڈومیسٹک کرکٹرز کا مقدمہ لے کر وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کیلیے گئے تھے، انا پرست احسان مانی نے ان کو نشان عبرت بنانے کا ارادہ کر لیا تھا۔
اس کا آغاز چیف سلیکٹر کی پوسٹ واپس لے کر کیا گیا، بدقسمتی سے ٹیم کی اوسط درجے کی کارکردگی نے مصباح کا کیس مزید کمزور کر دیا تھا،مسٹر ٹک ٹک نے اننگز ’’ڈیکلیئرڈ‘‘تو کر دی لیکن اگر وہ خود نہ جاتے تو شاید ابھی نہیں تو ورلڈکپ کے بعد برطرفی کا پروانہ مل جاتا،جو ٹیم منتخب ہوئی اس سے تو کپتان بابر اعظم بھی مایوس نظر آتے ہیں،ویسے اگر کوچز کو تبدیل کرنا تھا تو پہلے ہی کر دیتے،تاخیر سے نقصان ہی ہوگا، اب عبوری طور پر ثقلین مشتاق اور عبدالرزاق کا تقرر کیا گیا ہے۔
سابق اسپنر انگلینڈ اور نیوزی لینڈ سمیت کئی انٹرنیشنل ٹیموں کے ساتھ منسلک رہ چکے، انھیں کوچنگ کا اچھا خاصا تجربہ ہے، وہ کھلاڑیوں کی عمدگی سے رہنمائی کر سکتے ہیں، اسی طرح عبدالرزاق کی زیرکوچنگ ڈومیسٹک ٹیموں نے بہترین پرفارم کیا ہے، دونوں ساتھ کھیل چکے اور اچھی ہم آہنگی ہے،امید ہے ٹیم سے بہتر نتائج سامنے لائیں گے، البتہ ایک بات طے ہے کہ بورڈ کسی غیرملکی کو ہیڈ کوچ بنانے کا فیصلہ کر چکا، وسیم خان کی کشتی خود ڈوب رہی ہے لہذا ضروری نہیں کہ ان کے دوست پیٹر مورز ہی آئیں۔
البتہ اگر رمیز راجہ کسی اور اچھے متبادل کو تلاش نہ کر سکے تو مورز کی جانب ہی دیکھنا پڑے گا، ورلڈ کپ سے ایک ماہ قبل کوچز کی تبدیلی پاکستان کرکٹ کیلیے اچھی علامت نہیں، ٹیمیں ایسے ایونٹس کی برسوں تیاریاں اور پلاننگ کرتی ہیں مگر ہم نے اسکواڈ میں پٹے ہوئے مہرے شامل کر لیے اور کوچز بھی سامان باندھ کر چلتے بنے، اب جو بھی نیا کوچ آیا اور خدانخواستہ ٹیم اچھا پرفارم نہ کر سکی تو اس کے پاس جواز ہوگا کہ اتنے کم وقت میں کیا کر سکتا تھا میرے پاس کوئی الادین کا چراغ تھوڑی ہے، راجہ صاحب عرف ریمبو نے آنے سے قبل ہی بھرپور فائرنگ شروع کر دی ہے۔
پہلے تو اسکواڈ تبدیل کرا دیا، پھر کوچز کو اشارے دیے کہ عزت سے نہ گئے تو نکال دیا جائے گا،کیریئر میں محتاط انداز سے کھیلنے والے رمیز راجہ سے اتنے تیز آغاز کی توقع نہ تھی،اب تو ایسا لگتا ہے کہ جب وہ عہدہ سنبھالیں گے تو بورڈ کے اندر بھی بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی، آج کل تو اسپورٹس کے حوالے سے ہر تھوڑی دیر بعد ٹی وی چینلز پر ’’بریکنگ نیوز‘‘ دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
قذافی اسٹیڈیم کا ماحول ہی کچھ ایسا ہے جو وہاں آئے خود کو طاقتور ترین شخص سمجھنے لگتا ہے اسے اپنے سامنے کوئی اور نظر نہیں آتا، رمیز اس حوالے سے منفرد ہیں کہ انھوں نے تو ابھی عہدہ ہی نہیں سنبھالا مگر ایکشن میں آ چکے،انھیں خود کو وزیر اعظم عمران خان کے سامنے ثابت کرنا ہے کہ دیکھیں سر میں نے ٹیم بدل دی، کوچز بدل دیے، مگر اصل اہمیت قسمت بدلنے کی ہے۔
اگر پاکستان ٹیم اچھا پرفارم کرنے لگے اور ورلڈکپ جیت لے تو رمیزکو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا لیکن اگر خدانخواستہ نتائج اچھے نہ رہے تو اس میں ان کے ’’ایڈونچرز‘‘ کا بھی بڑا کردار ہوگا، تب وہ کہیں گے کہ میں نے تو13 ستمبر کو عہدہ سنبھالا تبدیلیاں تو میرے آنے سے پہلے ہی ہو چکی تھیں مگر سب جانتے ہیں کون ایسا کر رہا ہے۔
وسیم خان نے تو انگلینڈ واپسی کی تیاری بھی شروع کر دی ہوگی، وہ اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ بڑے فیصلے کر سکیں یقیناً ایسا نامزد چیئرمین ہی کر رہے ہیں،ویسے راجہ جی کو محلاتی سازشوں سے بچنا ہوگا، پی سی بی میں بہت سے لوگوں کو ان کے آنے سے اپنی کرسی خطرے میں نظر آ رہی ہیں، ایسے لوگ جانتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کے خاص الخاص ہیں۔
لہذا نقصان نہیں پہنچا سکتے لیکن عوام کی نظروں میں ’’ولن‘‘ بنانے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے، اس کیلیے اپنے آزمودہ ’’ہتھیار‘‘ استعمال کیے جا رہے ہیں، چیئرمین کو ایسے لوگوں سے محتاط رہنا ہوگا بلکہ انھیں آتے ہی ان کی خدمات کو ’’سراہتے‘‘ ہوئے گھر بھیج دینا چاہیے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے فی الحال تو شائقین کرکٹ ورلڈکپ کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں، تبدیلیوں کی آندھی کہیں اپنے ہی قدم نہ اکھاڑ دے۔

سلیم خالق
سلیم خالق کی تمام تحاریر ایکسپریس بلا گ سے لی جاتی ہیں. مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں