Attaul-Haq-Qasmi 166

جب تاج اچھالے جائیں گے

میں صبح جب گھر سے نکلتا ہوں تو فقیروں کے ریوڑ کے ریوڑ ریڈ سگنل پر کھڑے نظر نہیں آتے بلکہ ہر کار اور موٹر سائیکل والے پر جھپٹتے ہیں، ان کی بہت بڑی تعداد پیشہ ور فقیروں کی ہے، میں انہیں پیسے دینا گداگری کو فروغ دینے کے مترادف سمجھتا ہوں تاہم یہ سوچ کر کہ کئی گھنٹوں سے یہ دھوپ میں کھڑے ہیں، ان میں سے جو عورتیں ہیں انہوں نے بچہ بھی گود میں اٹھایا ہوتا ہے، چنانچہ انہیں اور کچھ نہیں تو انسان سمجھ کر میں نے اپنی گاڑی میں جوس اور بسکٹ کے چھوٹے پیکٹ رکھے ہوتے ہیں، جو انہیں دیتا ہوں، مگر اکثریت اس سے مطمئن نہیں ہوتی، وہ کہتے ہیں ہمیں آٹا لے دیں، انہیں علم ہوتا ہے کہ جہاں وہ کھڑے ہیں وہاں میلوں تک آٹے کی کوئی دکان نہیں، ان کا مقصد ہوتا ہے کہ انہیں ہزار پانچ سو روپے دیئے جائیں۔ بہت سے گداگر کہتے ہیں کہ انہیں بھوک لگی ہے، بس کھانا کھلا دیں۔ دو چار دفعہ ایسے ہوا کہ قرب و جوار میں ’’بابو ہوٹل‘‘ ٹائپ کوئی ریستوران نظر آیا تو میں نے ڈرائیور سے کہا کہ اسے اپنے ساتھ لے جائو اور جو کچھ اور جتنا کچھ کھانا چاہے، اسے کھلائو، میں یہاں تمہارا انتظار کرتا ہوں مگر ہوتا یہ ہے کہ ریستوران کے قریب پہنچ کر کہتا ہے کہ اسے پیسے دے دیے جائیں ، وہ خود کھا لے گا۔ جب اس کی یہ خواہش پوری نہیں کی جاتی تو وہ بری سی شکل بنا کر کھانا کھائے بغیر وہاں سے کھسک جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: -   سیاسی دیوتا

ہزاروں کی تعداد میں لاہور کی سڑکوں پر کھڑے یہ گداگر جن میں ایک معقول تعداد خواجہ سرائوں کی بھی ہوتی ہے، سے قطع نظر لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں ایسے سفید پوش پاکستانی بھی ہیں کہ اب آٹا، چینی، چاول، گھی اور پکوان کی دوسری اشیاء بدترین مہنگائی کے سبب ان کی دسترس سے دن بدن دور ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ طبقہ کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتا، انہوں نے مکان کا کرایہ بھی دینا ہے، بچوں کے اسکول کی فیس بھی ادا کرنا ہے، بجلی اور گیس کے بل جو اب قدرے خوشحال افراد کے لئے بھی ادا کرنا مشکل ہوتے جا رہے ہیں، وہ بھی غربت کی آخری لکیر کو چھونے والے اس طبقے نے ادا کرنا ہوتے ہیں، اگر گھر میں کوئی بچی ہے، اس کی شادی کے لوازمات بھی پورے کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے چنانچہ ساون کے جن اندھوں کو ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے، وہ بھی ان کے دو کمروں کے مکان کا دورہ کر کے دیکھیں جہاں انہیں غربت سسکیاں لے لے کر فریاد کرتی نظر آئے گی تو شاید ان کا دل پسیج سکے اور وہ اس طبقے کے لئے بھی سوچیں، یہ پسماندہ لوگ اگر بیمار ہوتے ہیں تو انہیں دوا تک میسر نہیں آتی۔ میں نے ایک دفعہ ایک چھ سات سال کے بچے کو ایک میڈیکل اسٹور کے کائونٹر پر کھڑا دیکھا، اس کے ہاتھ میں دس روپے کا نوٹ تھا اور وہ کہہ رہا تھا اس کی ماں بیمار ہے، اس کے لئے کوئی میڈیسن دے دیں۔ کیا کوئی اہل دل اس طرح کا منظر دیکھ کر اپنے آنسو روک سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: -   سویا ہوا محل اور شاہی جوڑے کی سحرسازیاں

دوسری طرف بائیس کروڑ کی آبادی میں ایک کروڑ کے قریب لوگ خوشحال ہیں اور ان میں ایک طبقہ ارب پتی بھی ہے۔ آپ لاہور یا کسی بھی بڑے شہر میں نئی بستیوں کی طرف نکل جائیں آپ کو قطار اندر قطار عالیشان محل نظر آئیں گے، اہل غربت جب اہلِ ثروت کے یہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھتے ہوں گے تو ان کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی؟ اشفاق احمد کا ایک ٹی وی پلے ’’فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی‘‘ میں نے دیکھا تھا، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ وہ پلے دیکھیں تو آپ کو اپنا اچھا کھانا پینا بھی اچھا نہیں لگے گا۔ اس پلے میں ایک عالیشان محل کے ایک کمرے کے کوارٹر میں ایک استانی اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ بیٹی اس گھر میں آتی جاتی ہے اور ان کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر اپنی زندگی پر نظر ڈالتی ہے، تو اسے یہ زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے اور یوں وہ بیمار رہنے لگی ہے۔ اس اہل ثروت کی بیٹی کی شادی ہونے کو ہے اور یہ بچی دیکھتی ہے کہ کبھی سنار آتے ہیں اور زیورات کے ڈھیر اس خاندان کے سامنے پسند کرنے کے لئے بچھا دیتے ہیں، پھر ایک دن بزاز آتا ہے اور انتہائی مہنگے کپڑوں کے تھان کے تھان انہیں پسند کرنے کے لئے دکھاتا ہے، غریب بچی یہ سب دیکھ کر بالکل گم سم رہنے لگتی ہے اور بیمار پڑ جاتی ہے۔ اس کی ماں اس کی ذہنی کیفیت سے واقف ہے، وہ اس کے سامنے لوہے کی ایک پیٹی کھولتی ہے اور اسے کہتی ہے تم غم کیوں کرتی ہو، دیکھو یہ تمہاری شادی کا کتنا خوبصورت جوڑا سلوا کر رکھا ہوا ہے، یہ کنگن دیکھو، یہ فلاں چیز دیکھو، فلاں چیز دیکھو مگر وہ بچی ڈبڈباتی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتی رہتی ہے مگر اسے کوئی افاقہ محسوس نہیں ہوتا بلکہ اس کی حالت دن بدن بگڑتی چلی جاتی ہے اور ایک دن وہ مر جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: -   وزارت اتفاق رائے

یاد رکھیں ایسی تمام بچیوں کی موت کا حساب صرف صاحبانِ اقتدار کو نہیں، ہم سب کو دینا ہے، ان گھروں کے فاقوں کا حساب بھی ہم سب سے لیا جائے گا، ہر لمحہ ان کی مرتی خواہشوں کو کاندھا کون دے سکے گا۔ ڈرو اس وقت سے ؎

جب تخت گرائے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیں گے

Attaul-Haq-Qasmi
عطاءالحق قاسمی

کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں