میں تجزیہ نگار نہیں ہوں ورنہ میرا ہر تجزیہ غلط نکلتا۔ چنانچہ میں حالات، واقعات پر کالم کم کم لکھتا ہوں اور اگر کبھی لکھتا ہوں تو اپنے وجدان کی رہنمائی پر لکھتا ہوں ان دنوں افغانستان برننگ ایشو ہے۔ تازہ بہ تازہ خبریں سننے کو ملتی ہیں ابھی تک کی آخری خبر تو یہی ہے کہ پورا افغانستان طالبان کے زیر تسلط آگیا ہے بس پنج شیر کا مسئلہ حل طلب ہے۔ طالبان نے ملک بھر میں عام معافی کا اعلان کردیا ہے اور اب حکومت سازی کے لئے سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کچھ محکموں میں تقرریاں کردی ہیں۔ طالبان اشارہ دے رہے ہیں کہ اپنی حکومت میں وہ مختلف دھڑوں کوبھی شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی سخت گیری کی شہرت کو کم کرنے کی کوشش میں بھی ہیں، عورتوں کے حقوق کی بات کر رہے ہیں، انہیں ملازمتوں پر برقرار رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے، افغانستان کے تمام شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ ان کے نظریات کچھ بھی ہوں وہ ملک چھوڑ کر نہ جائیں انہیں تحفظ دیا جائے گا مگر جہاز سے گر کر اور فائرنگ میں کئی افراد کے جاں بحق ہونے کے باوجود لوگ ایئر پورٹ کی طرف ایک سیلاب کی صورت میں رواں دواں ہیں چنانچہ اب صرف غیر ملکیوں کو ایئر پورٹ جانے کی اجازت ہے کسی افغانی کو نہیں۔ پنج شیر میں احمد مسعود سے مذاکرات جاری ہیں۔ طالبان انہیں حصہ بقدر جثہ دینے پر رضا مند ہیں مگر ان کا مطالبہ اپنے جثے سے زیادہ کا ہےاور ہاں امریکہ کو صرف 31 اگست تک ایئر پورٹ کا انتظام اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہے جبکہ امریکہ اس میں توسیع چاہتا ہے۔ طالبان تادم تحریر اس پر رضا مند نہیں۔
طالبان افغانستان پر قبضے میں تو کامیاب ہوگئے ہیں مگر اپنانظام لانے کے حوالے سے ان کے رستے میں بہت رکاوٹیں ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، بات یہ ہے کہ شہروںمیں رہنے والے افغانی ایک خاص طرح کے طرز زندگی کے عادی ہو چکے ہیں اور یوں ان کی اور طالبان کی سوچ میں بُعد المشرقین ہے صرف افغانستان نہیں دنیا بھر کے شہری مسلمان ایک عالمی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں۔ مردوں اور خواتین کے لباس، وضع قطع اور طرز زندگی طالبان کی فکر سے بالکل مختلف ہیں ان حالات میں طالبان کا کام بہت مشکل ہوگیا ہے وہ اگر تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ ہی سہی جو نظام لاتے ہیں اس میں لباس، تفریحات، رہن سہن اور متعدد دیگر امور میں تصادم اور مزاحمت کا خطرہ بہرحال موجود رہے گا اور اگر طالبان کوئی بڑا فیصلہ لیتے ہیں تو ان کے حامی افغان بھی ان کے خلاف ہو جائیں گے۔ گویا وہ دونوں میں سے کسی ایک کے نشانے کی زد میں ضرور رہیںگے اور یوں ایک بار پھر خانہ جنگی کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ مال غنیمت کے سوا ان کے پاس اور کوئی اثاثہ نہیں ہے ایک تجارتی راہداری ہے اگر دنیا ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی اور باہر سے انہیں کسی قسم کی کوئی امداد نہیں ملتی بلکہ الٹا پابندیاں عائد کردی جاتی ہیںتو صورتحال مزید سنگین ہو جائے گی۔ طالبان کے پاس تکنیکی ماہرین بھی نہیں ہیں، حکومت چلانے کا تجربہ بھی نہیں ہے وہ تقریباً خالی ہاتھ ہیں اور ان حالات میں ان کے لئے یہی حکمت عملی مناسب ہے کہ وہ معاشرے کے سبھی طبقات کو ساتھ لے کر چلیں تاہم اس سے جو قباحت پیداہوسکتی ہے اس کے امکان کی طرف میں اوپر اشارہ کر چکا ہوں پاکستان بھی ان کے لئے بہت آگے بڑھ کر کوئی رول ادا نہیں کرسکتا، پاکستان کو اس حوالے سے بہت سوچ سمجھ کر اپنی پالیسی بنانا ہوگی۔
ان حالات کے پیش نظر میرا خیال یہ ہے کہ امریکہ کو ایک تاریخی شکست دینے کے باوجود طالبان کو جو چیلنجز پیش آسکتے ہیں ان سے عہدہ برآ ہونا کوئی آسان نہیں ہوگا اور یوںمیرے خیال میں طالبان پر اندرونی اور بیرونی دبائو دن بہ دن بڑھتا چلا جائے گا۔ طالبان نے اپنے ملک کو امریکی غلامی سے نکالنے کےلئے بے بہا قربانیاں دی ہیں اور یوں میری دعا ہے کہ یہ قربانیاں رائیگاں نہ جائیں، سو طالبان مومنانہ حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی بجائے (اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے) زمانہ کے ساتھ چلنے کی کوشش کریں، مگرکیا، کیا جائے کہ ان کے لئے یہ راستہ بھی اتنا آسان نہیں ہے۔

عطاءالحق قاسمی
کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں