گزشتہ روز اعجاز سے سات سال بعد ملاقات ہوئی، وہ، اس کی فیملی اور تینوں بھائی گزشتہ20 سال سے امریکہ میں مقیم ہیں اور ظاہر ہے ان سب کو امریکی شہری کا اسٹیٹس مل چکا ہے۔ پاکستان میں ان کے صرف والد اور والدہ رہ گئی تھیں جنہیں وہ ہر ماہ باقاعدگی سے خرچ بھیجتے تھے اور ان کی خدمت کے لئے ایک ملازم بھی رکھا ہوا تھا ۔اعجاز سے فون پر میری گپ شپ رہتی تھی، میں نے اسے فون پر پہلے اس کے والد اور پھر چند روز بعد ہی اس کی والدہ کی افسوسناک وفات کی خبر سنائی تھی دونوں بار وہ شدید غم زدہ نظر آیا وہ ان مواقع پر پاکستان آنا چاہتا تھا مگر بہت سی وجوہ کی بنا پر اس کے لئے آنا ممکن نہ تھا، چنانچہ اس نے مجھ سے کہا کہ میں تدفین و تکفین ، قل اورچہلم کے انتظامات کروں اور یہ بھی کہ اس پر جتنا بھی خرچہ آئے اس کی پروا نہ کی جائے وہ یہ ساری رقم ادا کر دے گا ۔
اب کل جب اس سے ملاقات ہوئی تو کچھ دیر اپنے والد اور والدہ کی وفات کے تذکرے پر بہت غم زدہ نظر آیا ایک موقع پر میں نے اس کی آنکھیں بھی نم دیکھیں، میں اسے حوصلہ دیتا رہا بالآخر وہ نارمل ہوا تو اس کی گفتگو سے میں نے محسوس کیا کہ اسے پاکستان میں مقیم پاکستانیوں سے بھی زیادہ پاکستان کی فکر ہے وہ اس بات پر بہت ملول نظر آ رہا تھا کہ پاکستانی قوم موجودہ قیادت کی قدر نہیں کر رہی، اس کا کہنا تھا کہ وہ جب سے پاکستان آیا ہے لوگوں کو مہنگائی کے حوالے سے روتا ہی دیکھ رہا ہے نیز یہ کہ بعض دوسرے معاملات کے پس منظر میں بھی اکثر لوگ حکومت پر بے جا تنقید کر رہے ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس دور حکومت میں کوئی ملک بھی پاکستان کا دوست نہیں رہا اور یہ کہ غریب لوگ ان دنوں جینے کی بجائے مرنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں جبکہ اس کے بہت سے دوست جو ڈی ایچ اے میں رہتے ہیں وہ اس طرح کی کوئی بات نہیں کرتے بلکہ موجودہ قیادت کو پاکستان کا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں ۔ اعجاز نے بتایا کہ وہ تو ان کی خوشحالی دیکھ کر حیران رہ گیا ان میں سے ایک کی فارماسیوٹیکل کمپنی اور ایک کی شوگر مل ہے، وہ پہلے بھی کھاتے پیتے تھے لیکن موجودہ حکومت کے تین برسوں میں ان کا کاروبار کہیں کا کہیں پہنچ گیا ہے مگر اس کے باوجود ہماری ناشکری قوم ہر وقت بڑبڑاتی رہتی ہے ۔
مجھے اعجاز کی یہ باتیں سن کر بہت خوشی ہوئی میں نے اسے بتایا کہ ساری قوم حکومت کے خلاف نہیں ہے، ایک بڑی تعداد ان کی حامی بھی ہے جن میں سے ایک میں بھی ہوں مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ مہنگائی مہنگائی کا شور کیوں ہے آخر میں بھی تو اس ملک میں ہی رہتا ہوں ۔کون سی مہنگائی ؟ الحمدللہ میرے ہاں اچھے سے اچھا کھانا پکتا ہے ہفتے میں ایک بار پوری فیملی کے ساتھ کسی ریستوران میں ڈنر کےلئے بھی جاتا ہوں ان تین برسوں میں ،میں نے تین گاڑیاں بھی تبدیل کی ہیں اور ہر بار الحمدللہ پہلے سے بہتر گاڑی خریدی ہے مجھے تو کبھی اپنی جیب پر کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوا البتہ میرے دونوں ڈرائیور ہر وقت مہنگائی کا رونا روتے رہتے ہیں میں انہیں کہتا ہوں اللہ سے ڈرو، اسے ناشکری پسند نہیں مگر وہ کہتے ہیں جناب پہلے ہم دال روٹی کھا لیتے تھے سبزی بھی پکتی تھی مگر اب آٹا دال اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں سمجھ نہیں آتی کیا کھائیں خیر دفعہ کرو یار اس قوم کو تو رونے دھونے کے سوا کوئی کام ہی نہیں !
میری اس گفتگو سے اعجاز بہت خوش ہوا مگر اس کے بعد تھوڑ اسا افسردہ بھی نظر آیا بولا یار تم اخبار میں ایک کالم تو لکھو میں نے پوچھا کس موضوع پر؟ کہنے لگا یہ تو تمہیں علم ہی ہے کہ میں نے اور امریکہ میں مقیم دوسرے پاکستانیوں نے اگرچہ پاکستانی پاسپورٹ سرنڈر کرکے امریکی پاسپورٹ لے رکھا ہے لیکن ہم ہیں تو پاکستانی مگر کتنی عجیب بات ہے کہ تمہارے پاکستان میں ہم لوگوں کی وہ قدر نہیں جس کے ہم حقدار ہیں حالانکہ ہم پاکستان کو اتنا زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ میں نے کہا زیادہ زرمبادلہ خلیجی ممالک سے آتا ہے کہ ان کے سارے عزیز واقارب پاکستان میں ہیں تاہم ان باتوں کے باوجود میں تم سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ بہت سی مجبوریوں کی وجہ سے دوسرے ممالک کی شہریت لینے والوں کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں خصوصی پروٹوکول ملنا چاہئے اب دیکھو نا تم لوگ بھی کھاتے پیتے ہو، میرے سمیت دوسرے لاکھوں پاکستانی بھی کھاتے پیتے ہیں ہم سب پڑھے لکھے لوگ ہیں جبکہ ہر وقت شکایات کا انبار لگانے والے کروڑوں لوگ ان پڑھ اور پسماندہ ذہن کے مالک ہیں چنانچہ ملک کی قسمت کا فیصلہ ان کے ہاتھوں میں کیسے دیا جا سکتا ہے ؟ میرے نزدیک وفاقی اور صوبائی حکومتیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی خدمات حاصل کریں تاکہ ہم بھی مغرب کی طرح ترقی کر سکیں ۔ یہ سن کر اعجاز کا چہرہ کھل اٹھا اور کہا شکر ہے ابھی ایسی سوچ رکھنے والے ہمارے ہاں موجود ہیں ۔ ورنہ آوے کا آوا ہی بگڑاہوا ہے ۔
اگلے روز میں نے اعجاز کے ساتھ اس کے والد اور والدہ کی قبروں پر فاتحہ خوانی کےلئے جاناتھا، قبرستان پہنچتے ہی اعجاز کو اس طرف لے گیا جہاں اس کے والدین دفن تھے مگر وہاں ان کی جگہ کچھ دوسری قبریں بن چکی تھیں۔ میں نے گورکن سے پوچھا تو اس نے کہا جناب ان قبروں کا کوئی والی وارث ہی نہیں تھا، یہ قبریں بیٹھ گئی تھیں ہم نے ان کا ملبہ اٹھا کر پرے کیا اور نئی قبروں کے لئے جگہ پیدا کی، یہ سن کر اعجاز نے میری طرف دیکھا اور کہا دیکھا اپنا ملک ؟بے حسی کی حد ہے ! میں نے یہ سن کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔

عطاءالحق قاسمی
کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں