اچھے برے لوگ ہر دور اور ہر شہر میں ہوتے ہیں۔ سن پچاس کی دہائی میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے لیکن برائی افراد تک محدود تھی اور اس دور میں اسے معاشرتی رویے کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ چنانچہ لوگ برائی سے نفرت کرتے تھے۔ جو اس میں ملوث ہوتے وہ اس پر فخر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے تھے۔ فلموں میں ولن کے پردۂ اسکرین پر آتے ہی لوگ اُس پر گالیوں کی بوچھاڑ کردیتے تھے۔ اب فلموں میں اور معاشرے میں ولن نے ہیرو کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ پردۂ اسکرین پر دیکھ کر اُسے تالی بجائی جاتی ہے۔ معاشرتی زندگی میں یہ بدکردار شخص صاحبِ عزت نظر آتا ہے۔ وزیر آباد میں ذرا سا برا آدمی بھی نظروں میں آ جاتا تھا۔ ہر شخص اس پر انگلی اٹھاتا اور یوں اس کے لئے کھل کھیلنا مشکل ہو جاتا۔
دوسرے چھوٹے شہروں اور قصبوں کی طرح وزیر آباد میں بھی تفریحات کا فقدان تھا، ویسے بھی نیا نیا ملک بنا تھا، اسے بےشمار مسائل کا سامنا تھا، اولین ترجیح لٹے پٹے لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا اور تباہ شدہ سیٹ اَپ بحال کرنا تھا اور سچی بات یہ ہے کہ اس دور کے سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لوگوں نے تعمیر وطن میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جمہوری نظام کی شروعات تھی چنانچہ حکومتیں ٹوٹتی اور بنتی رہتی تھیں، کہا جاتا تھا کہ نہرو اتنی جلدی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی ہماری حکومت بدل جاتی ہے۔ اس طرح کی باتیں سیاسی ناپختگی کے زمرے میں آتی تھیں۔ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں روز حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔ ہمارے طالع آزمائوں نے عوام کی اس سوچ سے فائدہ اٹھایا اور 1953میں ایوب خان نے حکومت پر قبضہ کرنے کی سازشیں شروع کردیں اور بالآخر1958میں ملک پر قابض ہو گیا اور دس سال حکومت کرنے کے بعد جب عوامی تحریک کے نتیجے میں اسے تخت و تاج سے دستبردار ہونا پڑا تو یحییٰ خان کو تخت پر بٹھا دیا۔ دس سال میں ملک کی چولیں ہلا دی گئی تھیں، ایک ذرا سے دھچکے سے پوری عمارت نیچے آن گری۔ مشرقی پاکستان میں ہمیں ہتھیار ڈالنا پڑ گئے اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔
میں بتا رہا تھا کہ دوسرے قصبات کی طرح وزیر آباد میں بھی تفریحات کا فقدان تھا بجلی اور دیگر سائنسی ایجادات کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگ اندھیرا ہونے سے پہلے رات کا کھانا کھا لیتے تھے۔ بچے کھیلنے کے لئے نکل جاتے۔ عورتیں ایک جگہ اکٹھی ہو کر گپ شپ کرتیں اور عام لوگ بازاروں میں پان سگریٹ کی دکانوں پر یا تھڑوں پر بیٹھ کر حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کرتے۔ اس دور میں نجی زندگی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ بین الاقوامی معاملات سے لے کر لوگوں کے گھریلو حالات تک موضوع گفتگو بنتے۔ اس حوالے سے کسی برے آدمی کا شہر میں جینا محال ہو جاتا تھا۔ مین بازار کا رہائشی ایک کبوتر باز شہر میں بہت بدنام تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اسے اپنے سے کم عمر لوگوں کی صحبت بہت پسند تھی اور اتفاق یہ کہ وہ اپنے سے کم عمر ایک نوجوان کے ہاتھوں قتل ہوا۔ یہ وزیر آباد شہر کا دوسرا یا تیسرا قتل ہوگا جو میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ ان دنوں عید میلاد النبیؐ کا جلوس شہر میں بہت دھوم دھام سے نکلتا تھا۔ یہ جلوس بیل گاڑیوں پر نکالا جاتا اور بہت سے نوجوان اونٹوں اور گھوڑوں پر عربی لباس میں ملبوس جلوس کے ساتھ ہوتے۔ جلوس میں کرنال کے مہاجرین کا ایک دستہ تلواروں کے ساتھ گتکے بازی کا مظاہرہ کرتا، تحریک کے دوران خاکسار بھی اپنی خاکی وردی میں ملبوس کاندھوں پر بیلچے رکھے ’’چپ راست‘‘ کرتے، جلوس میں مارچ کرتے نظر آتے۔ عید میلاد النبیؐ کا یہ جلوس شیعہ سنی مل کر نکالتے تھے۔ پان سگریٹ فروش صابر شاہ بیل گاڑی پر سوار اپنی خوبصورت آواز میں نعت خوانی کرتا۔
شہر کی سیاست راجہ عبداللہ اور سجاد نبی کے گرد گھومتی تھی۔ اس دور میں پاکستان کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین تھے جو بنگالی تھے۔ ان کی شرافت اور بسیار خوری دونوں کی بہت شہرت تھی۔ 1953میں پاکستان میں اینٹی قادیانی تحریک کا آغاز ہوا اور جنرل اعظم خان کا مارشل لا لگا جس نے تحریک کے شرکا پر اندھا دھند گولیاں چلائیں۔ وزیر آباد میں بھی اس تحریک کی باز گشت سنائی دی۔ مولانا عبدالغفور ہزاروی اور مولانا محمد رمضان اس میں پیش پیش تھے۔ مولانا محمد رمضان سندھی تھے۔

عطاءالحق قاسمی
کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں