ﷲ جانے مجھے ان دنوں کدو اور ٹینڈے کیوں بُرے لگتے تھے جس روز یہ گھر میں پکتے، میں یہ کھانے سے انکاری ہوتا جس پر میری شامت آجاتی، ان دنوں مائیں اپنے روٹھے ہوئے بچوں کو منانے کےلئے انہیں چُوری کھلایا کرتیں، یہ عیاشی امتحان کے نزدیکی دنوں میں خصوصاً ہوتی تھی۔ تو ے کی پکی ہوئی روٹی کے ٹکڑے کرکے ایک پیالے میں ڈال دیے جاتے تھے۔پھر دیسی گھی کے تین چار چمچ اور چینی ڈال کر روٹی کے ان ٹکڑوں کو ہاتھوں سے خوب مسلا جاتا جس سے گھی اور چینی ان میں جذب ہو جاتی۔ ’’چُوری‘‘ کی قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہیر، رانجھے کو چوری چھپے چُوری کھلاتی تھی۔ چُوری اور اس دور کے کچھ غریبانہ محاوروں مثلاً تیرے منہ میں گھی شکر ‘‘ وغیرہ سے اس زمانے کی معاشی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
وزیر آباد میں خواتین گھروں سے کم باہر نکلتی تھیں، ارد گرد کے گائوں کی عورتیں دھوتی میں ملبوس خریدوفروخت کے لئے مین بازار میں چلتی پھرتی نظر آجاتی تھیں۔ شہری عورتیں شٹل کاک برقعے میں گھر سے باہر آتیں، جب سیاہ فیشنی برقعہ ’’ایجاد‘‘ ہوا تو جمعہ کے خطبوں میں اس پر بہت لے دے ہوئی مگر پھر اس ’’فیشن‘‘ کو ہضم کر لیا گیا۔اس زمانے میں لڑکیاں لمبے بال رکھتی تھیں اور رنگ برنگے پراندے ان کی ’’گُت‘‘ کے ساتھ پیوند ہوتے تھے ان کے گھنے اور لمبے سیاہ بال ان کی ٹانگوں تک آتے تھے۔ اسی زمانے میں دو ’’گُتیں ‘‘ کرنے کا فیشن شروع ہوا جس پر بہت شور اٹھا اور اسے نئی نسل کی بے راہ روی قرار دیا گیا اس زمانے میں یہ فلمی گانا بھی بہت مشہور ہوا!
مائے میریئے نی مینوں بڑا چا
تے دو گُتاں کر میری آں
(اماں میری دو چوٹیاں بنا دو مجھے دو چوٹیاں بنانے کا بہت شوق ہے)مسجدوں میں مولوی صاحبان یہ گانا پوری لے کے ساتھ گاتے اور پھر اس کے حوالے سے نئی نسل پر طنز کرتے پھر یہ فیشن بھی قبول کر لیا گیا تاہم اس ردعمل کا شاید یہ ردعمل تھا کہ دوچھوڑ، سر سے اب ایک چوٹی بھی غائب ہوگئی !
وزیر آباد میں ایک سینما تھا جس میں عموماً انڈین فلمیں لگتی تھیں کیونکہ ابھی پاکستانی فلم انڈسٹری اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہوئی تھی یہ سینما شہر سے قدرے باہر تھا چنانچہ میرا یا میرے دوستوں کا ادھر سے گزر نہیں ہوتا تھا سننے میں آیا تھا کہ بعض فیملیز بھی باکس میں بیٹھ کر یہ فلمیں دیکھتی تھیں۔ میں نے اپنی زندگی کی پہلی فلم لاہور آکر دیکھی، یہ بھی ایک انڈین فلم تھی اور میرے برادر بزرگ ضیاء الحق قاسمی مرحوم والد ماجد سے چوری چھپے یہ فلم دکھانے لے گئے تھے اس زمانے کی فلمیں بہت سادہ ہوتی تھیں۔ ’’فحاشی‘‘ کا نام ونشان نہیں تھا ہیرو ہیروئن بھائی بہن لگتے تھے۔ سینما ہال کی دیواروں پر ترچھے پنکھے لگے ہوتے تھے۔ جب فلم بینوں کی پسند کا کوئی گانا آتا تو تماشائی خراج تحسین ادا کرنے کے لئے ان پنکھوں پر سکوں کا چھٹا مارتے جس سے ایک جھنکار پیدا ہوتی فلم کے اختتام پر یہ سکے خاکروب کے حصے میں آتے اس زمانے میں اخبارات کا سائز چھوٹا ہوتا تھا اور وہ بلیک اینڈ وائٹ میں چھپتے تھے۔صفحات بھی بہت کم ہوتے تھے۔ تصویریں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں۔ تصویر صرف کسی بڑے لیڈر کی شائع ہو سکتی تھی۔ ان اخبارات کے ایڈیٹر علمی اور ادبی شخصیت کے حامل ہوتے تھے چنانچہ زبان کا خاص خیال رکھاجاتا تھا۔ رنگین ایڈیشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی طباعت کچھ زیادہ معیاری نہیں ہوتی تھی مگر ان میںشائع ہونے والا ایک ایک حرف پوری دیانتداری سے لکھا گیا ہوتا تھا۔ اخبارات اس وقت مشن تھے۔ ابھی انڈسٹری نہیں بنے تھے حکومتی ایوانوں میں ایڈیٹر کی دھاک بیٹھی ہوتی تھی۔ صاحبانِ اقتدار ان کی بلیک میلنگ سے نہیں بلکہ ان کے کردار کی عظمت سے خائف رہتے تھے ان دنوں جرائم کی شرح بے حد کم تھی اخبارات بھی جرائم کو فرنٹ پیج کوریج نہیں دیتے تھے۔ خبروں اور مضامین میں خواتین کی عزت وحرمت کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا تھا۔ ہر اخبار میں ایک فکاہی کالم ضرور ہوتا تھا جو کوئی بڑا ادیب اور صحافی لکھتا تھا۔’’جو اب مضمون ٹائپ کالم ‘‘آج کے دور کی پیداوار ہیں۔ وزیر آباد میں ’’حاجی اخباراں والا‘‘کے پاس تمام اخبارات کی ایجنسی تھی حاجی صاحب خود اور ان کے بچے سائیکل پر اخبارات تقسیم کرتے۔انہوں نے سائیکل کے ساتھ گھنٹی کی بجائے بھونپو لگوائے ہوتے تھے صبح صبح جب ’’بھائوں بھائوں‘‘کی آواز سنائی دیتی تو پتہ چلتا کہ اخبار آ گیا ہے۔
سادہ سی زندگی گزارنے والے وزیر آباد کے شہریوں کے لئے ’’اطلاع عام‘‘ کا ذریعہ بھی بہت سادہ تھا اگر شہر میں کوئی نئی دکان کھلتی کوئی فوت ہو جاتا کسی جلسے یا جلوس کا اعلان کرنا ہوتا یا مہاجرین کے قافلے میں سے کسی کی گمشدگی یا بازیابی کی اطلاع دینا ہوتی یا کسی کا کوئی بچہ گم ہو جاتا تو اعلان کےلئے دو افراد کی خدمات حاصل کی جاتیں۔ یہ دونوں افراد شہر کے نمایاں مقامات پر کچھ دیر کے لئے پڑائو ڈالتے ان میں سے ایک گھنٹی یا ڈھول بجا کر مجمع اکٹھا کرتا اور دوسرا اپنی پاٹ دار آواز میں اعلان کرتا اور پھر وہ اگلے چوک کا رخ کرتے۔اکثر اوقات ایک ہی شخص یہ دونوں کام کرتا۔ اس قسم کے اعلانات عموماً میاں لِلی کیا کرتے تھے جو شہر کی ایک مشہور شخصیت تھے۔ وفات سے چند سال بیشتر انہوں نے مجھ سے گلہ کیا کہ میں نے اپنے کالم میں ان کا نام میاں منظور الحق لکھنے کی بجائے میاں لِلی کیوں لکھا، ان کا یہ گلہ بے جا تھا کیونکہ اگر میں منظور الحق لکھتا تو پورے شہر میں کسی کو پتہ ہی نہیں چلنا تھا کہ میں کس کا ذکر کر رہا ہوں۔ عوام کا دیا نام، رجسٹر پیدائش میں لکھے ہوئے نام سے زیادہ مقبول ہوتا ہے!

عطاءالحق قاسمی
کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں