(گزشتہ سے پیوستہ)
میں جس وزیر آباد کی بات کر رہا ہوں وہ ایک بالکل مختلف دور تھا۔ ابھی ڈاکوئوں کا رواج نہیں پڑا تھا۔ اس دور میں دہشت گردی کی وارداتیں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ لوگ اپنوں میں اور گھروں سے باہر ہر جگہ محفوظ تھے۔ البتہ اِکا دُکا چوری کی کوئی واردات سننے میں آجاتی تھی مگر یہ چور اس قدر بھلے مانس ہوتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں کوئی کھڑکی یا دروازہ کھلا رہنے کی صورت میں گھر میں داخل ہوتے تھے اور کوئی چھوٹی موٹی چیز اٹھا کر لے جاتے تھے۔ اگر اہلِ خانہ کی آنکھ کھل جاتی تو چور کو لینے کے دینے پڑ جاتے اور اُسے بھاگتے ہی بن پڑتی۔ بدمعاشی اور غنڈہ گردی چھوٹے موٹے جھگڑوں پر مبنی تھی، اُس دور میں کلاشنکوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور سب سے بڑے غنڈے کے پاس بھی گراری والا چھ انچ کا چاقو ہوتا تھا جس کے کھولنے پر ’’گر…گر…گر‘‘ کی آواز پیدا ہوتی اور حریف یہ آواز سن کر ہی بھاگ جاتا یا لڑائی جھگڑے میں پان سگریٹ کی دکان پر پڑی سوڈے کی بوتلیں بطور ہتھیار استعمال ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ لوہے کا ’’مُکا‘‘ہوتا تھا جو شدید لڑائی کی صورت میں استعمال کیا جاتا۔ وزیر آباد میں ’’جانا چور‘‘ بہت مشہور تھا مگر وہ وزیر آباد میں نہیں وزیر آباد سے باہر وارداتیں کرتا تھا۔ اس نے گھر سے باہر پیاسوں کے لئے ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا ہوا تھا چنانچہ گرمیوں کے موسم میں سینکڑوں راہگیر اس سبیل سے پانی پیتے اور ’’جانا چور‘‘ کو دعائیں دیتے۔
وزیر آباد میں گھروں میں ہینڈ پمپ لگے ہوئے تھے یہاں کا پانی گرمیوں میں ٹھنڈا یخ اور سردیوں میں ’’کوسا کوسا‘‘ ہوتا تھا چنانچہ گرمیوں میں نہاتے ہوئے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی اور سردیوں میں ’’ٹکور‘‘ کا احساس ہوتا تھا۔ اس زمانے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی چنانچہ کسی گھر میں بھی ریفریجریٹر، ایئر کنڈیشنر یا اس طرح کی دوسری چیزیں موجود نہیں تھیں۔ شام ہوتے ہی گھروں میں لالٹینیں جل اٹھتیں کسی کو دوسرے کمرے میں جانا ہوتا تو وہ لالٹین ہاتھ میں پکڑے اسی کی مدہم روشنی میں اپنا ’’سفر‘‘ طے کرتا اس کی واپسی تک باقی اہلِ خانہ اندھیرے میں بیٹھے رہتے۔ گھر کا کوئی شرارتی فرد خوفناک آواز نکال کر سب کو ڈرانے کی کوشش کرتا اور اصلیت ظاہر ہونے پر گھر میں قہقہے گونجنے لگتے۔ کمرے کی چھتوں پر جہازی سائز کے کپڑے کے پنکھے ہوتے تھے، گرمیوں کی دوپہر کو کوئی ایک فرد ایک کونے میں بیٹھ کر اس پنکھے کی رسی کو کھینچتا رہتا جس سے ہوا سارے کمرے میں پھیل جاتی اور یوں پنکھا کھینچتے کھینچتے وہ بھی دوسرے افرادِ خانہ کے ساتھ وہیں بیٹھے بیٹھے سو جاتا!
اُس دور کے امیر آدمی کی ایک نشانی یہ ہوتی تھی کہ وہ سواریوں والے تانگے کی بجائے سالم تانگے میں بیٹھتا تھا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، پورے شہر میں صرف دو یا تین کاریں تھیں، ایک شمن والے راجہ عبداللہ کی اور دوسری سجاد نبی کی! مگر یہ دونوں کاریں شہر میں کم کم داخل ہوتی تھیں کیونکہ یہ دونوں گھر شہر سے ذرا ہٹ کر تھے چنانچہ کسی کو اس حوالے سے بھی کوئی احساسِ کمتری نہیں تھا۔ ان دونوں متمول گھرانوں کے علاوہ کچھ اور گھرانے بھی خوشحال سمجھے جاتے تھے، ان میں سے ایک قائداعظم کے سیکرٹری خواجہ محمد شریف طوسی اور دوسرا گجرات پنجاب بس سروس والے سلطان میر کا گھرانہ تھا لیکن اگر سچ پوچھیں تو یہ وہ شہر تھا کہ جس میں نہ کوئی امیر تھا اور نہ کوئی غریب، کیونکہ سب اس نوزائیدہ اسلامی مملکت پاکستان کے شہری تھے جن کے دِلوں اور عمل میں اپنے نئے وطن کی تعمیر کا جذبہ ’’ہلالے‘‘ لیتا نظر آتا تھا۔
جس وزیر آباد کی میں بات کر رہا ہوں اسی وزیر آباد میں مامتا ابھی دودھ کے ڈبوں میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ مائیں اپنے لاڈلوں کو اپنا دودھ پلاتی تھیں۔ اکثر گھروں میں گندم پیسنے والی چھوٹی سی چکی ہوتی تھی اور اس پر خاصا زور صرف ہوتا تھا۔ یہ ڈیوٹی بھی خواتین انجام دیتیں۔ گھروں میں گرائنڈر بھی نہیں ہوتے تھے ’’چٹو وٹا‘‘ (ہاون دستہ) ہوتا تھا سو مسالے ہاون دستے سے پیسے جاتے تھے، یہ گیس والے چولہے بھی ان دنوں کہاں تھے، ’’انگیٹھی‘‘ میں لکڑی کا برادہ ٹھُوس کر بھرا جاتا اور پھر اس پر کھانا پکایا جاتا، تیل کے چولہے جنہیں ’’اسٹوو‘‘ کہا جاتا تھا، بھی استعمال میں آتے تھے نیز لکڑیاں بھی جلائی جاتی تھیں۔ واشنگ مشین کا بھی کوئی تصور نہیں تھا، ڈنڈے مار مار کر کپڑے دھوئے جاتے تھے۔ یہ ڈنڈا خاصی کثیر الاستعمال چیز تھی، اسی سے مائیں بچوں کی پٹائی بھی کرتی تھیں۔ بچوں کی پٹائی کے لئے چمٹا بھی خاصا مفید آلہ سمجھا جاتا تھا۔ مار کٹائی کے علاوہ چمٹے سے دہکتے چولہے میں کوئلہ پکڑنے کا کام بھی لیا جاتا، عالم لوہار نے اسے آلۂ موسیقی میں بدل دیا۔ چولہے کے ساتھ ایک اور ضروری آئٹم ’’پھونکنی‘‘ بھی تھی۔ جب آگ بھجنے لگتی تو پھونکنی کے ایک سرے پر منہ رکھ کر زور سے پھونک ماری جاتی۔ پھونک مارنے والے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے کیونکہ گیلی لکڑیوں کا دھواں سیدھا اس کی آنکھوں کو پڑتا۔ فریج کی جگہ گھروں میں ’’چھیکو‘‘ ہوتا تھا، لوہے کا بنا ہوا، یہ بڑا سا ہوا دار پیالہ کسی اونچی جگہ پر لٹکا دیا جاتا تاکہ اس میں دھری ہوئی چیزیں تازہ رہیں۔ اس کے علاوہ صحن میں ’’ڈولی‘‘ بھی ہوتی تھی، اسے آپ چھوٹی سی الماری کہہ لیں جس میں ہوا کے لئے جالیاں لگائی جاتی تھیں، اس میں سبزی وغیرہ رکھی جاتی تھی۔ اس وقت تک ٹیپ ریکارڈ اور ڈیک وغیرہ بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے بس گرامو فون ہوتا تھا، اس سے استفادے کے لئے ’’زور بازو‘‘ کی ضرورت پڑتی تھی، جب گانے والے کی آواز کم ہو کر ’’چوں چوں چاں چاں‘‘ میں بدلنے لگتی، آپریٹ کرنے والے کو پوری قوت سے اس کا ہینڈل گھمانا پڑتا یوں گانے والے سے زیادہ آپریٹ کرنے والے کا زور لگتا تھا!

عطاءالحق قاسمی
کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں