1947میں ہم لوگ امرتسر سے ہجرت کرکے وزیر آباد آ گئے۔ یہاں میری نانی اپنے سائیں بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں۔ امرتسر میں ہم لوگ سامان سے لدا ہوا ایک نیا مکان چھوڑ کر آئے تھے، اُس کے بدلے وزیر آباد کے گلہ بکریاں والا محلہ لیر چونیاں کے ایک مکان میں ہمارے خاندان کو پناہ ملی۔ اُس مکان میں ہماری پھوپھیاں اور اُن کے اہلخانہ بھی تھے۔ یوں کوئی تیس پینتیس کے قریب لوگ اُس گھر میں ٹھسے ہوئے تھے، بعد میں ہم سب لوگ الگ الگ گھروں میں چلے گئے۔
ہم بھی ان بے سروسامان مہاجروں میں سے تھے جن کے لئے بستروں، چارپائیوں اور خوراک کا انتظام مقامی آبادی نے کیا اور اپنے عمل سے انصارِ مدینہ کی یاد تروتازہ کر دی۔ میرے دل کے نہاں خانے میں 74برس پہلے کا وزیر آباد اور اپنا گھر آج بھی آباد ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جس کی آبادی چند ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ والد ماجد کو ایم پی ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔ اُس زمانے میں اُن کی تنخواہ سو پچاس روپے سے زیادہ کیا ہوگی، ہم آٹھ بہن بھائی اور والد والدہ سمیت دس افرادِ خانہ تھے۔ گلی سے باہر نکلتے ہی بائیں ہاتھ ملک عطاء اللہ کی دودھ دہی کی دکان تھی۔ ملک صاحب کا قد ٹھگنا اور جسم فربہ تھا چنانچہ میں صبح ناشتے کے لئے وہاں سے دہی خریدتا اور گھر پہنچتے پہنچتے ساری بالائی چٹ کر جاتا۔ دوپہر کو مائی جھوری کے تنور پر روٹیاں لگوانے کی ڈیوٹی بھی عموماً میرے ذمے ہوتی۔ وہ آٹے میں سے دو تین پیڑے اپنی اجرت کے طور پر رکھ لیتی تھی۔ دوپہر کو نمکین روٹی میٹھے خربوزے کے ساتھ کھانے کا اپنا ہی لطف تھا۔ رات کو ڈیڑھ پائو گوشت کی دس بوٹیاں کی جاتیں اور یوں سب کے حصے میں ایک ایک بوٹی آجاتی۔ امی جان اپنے حصے کا سالن الگ کر لیتیں اور اگر کوئی مہمان آ جاتا یا کوئی فقیر صدا لگاتا تو یہ سالن اس کے آگے رکھ دیتیں۔ میں نے اپنے بچپن میں کئی بار اپنی ماں کو ہانڈی سے روٹی پونچھ کر ہی کھاتے دیکھا۔
میں جس زمانے کے وزیر آباد کا ذکر کر رہا ہوں وہ ایک صاف ستھرا خوبصورت قصبہ تھا۔ فجر کی اذان سے پہلے خاکروب سارے شہر کو آئینے کی طرح چمکا دیتے اور محلے کی نالیوں میں بھی صاف پانی بہتا نظر آتا۔ شام ڈھلتے ہی کارپوریشن کا عملہ گلی محلوں کی لالٹینوں میں تیل ڈالتا اور بتیاں ٹھیک کرتا اور پھر گلیاں روشن ہو جاتیں۔ اُس چھوٹے سے قصبے میں ریلوے اسٹیشن، اسپتال، ڈاکخانہ سب قریب قریب تھے۔ چنانچہ ان تک رسائی کے لئے ٹانگیں اور تانگے کافی تھے۔ روٹیاں بیچنے والے گلی میں ’’گرم روٹی‘‘ کی آوازیں لگاتے۔ سردیوں کی خشک راتوں میں گرم انڈے کی آوازیں بھی گونجتیں۔ فقیر خیرات میں آٹا یا بچی کھچی روٹی کے ٹکڑے وصول کرتے اور دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوتے۔ میں ایم پی پرائمری اسکول نمبر 2میں پڑھتا تھا جسے عرف عام میں کھوتی اسکول کہا جاتا تھا۔ ٹاٹوں پر بیٹھ کر علم حاصل کرنے والے ہم بچے ’’آدھی چھٹی‘‘ کو محمد حسین بلے سے ایک پیسے کے چنے لیکر کھاتے یا تختیوں سے شمشیر زنی کا مظاہرہ کرتے۔ شام کو ہم محلے کے بچے ’’کھولے‘‘ میں جمع ہوتے جہاں وہ تمام کھیل منجملہ کوڈیاں، اخروٹ اور بنٹے وغیرہ کھیلے جاتے، جو ہمارے والدین کی طرف سے ہم پر بین تھے۔ پابندی تو پتنگ بازی پر بھی تھی مگر میں نے لوٹی ہوئی پتنگیں اور ڈوریں چھت پر چھپا کر رکھی ہوئی تھیں جب دوپہر کو سب سو جاتے، میں ننگے پائوں تپتی چھت پر شعلے اگلتے سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا یہ شوقِ فضول پورا کرتا!
گرمیوں میں ہم لوگ چھت پر تاروں بھرے آسمان تلے سویا کرتے تھے، میرے کانوں میں ابھی تک ان پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ تازہ ہے جو فجر کے وقت سروں پر سے گزرتے تھے۔ آدھے سوئے اور آدھے جاگتے ہوئے بچے کے کانوں میں سنائی دینے والی یہ پُراسرار پھڑپھڑاہٹ وہ کبھی نہیں بھول سکا، میں نے کئی دفعہ ان پرندوں کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن میرے پوری طرح جاگنے سے پہلے ہی مل گجی روشنی میں میری نظروں سے اوجھل ہو جاتے تھے۔ ہمارے گھر میں ’’ہائی‘‘ کمپنی کا ریڈیو تھا جو بیٹھک میں ایک ڈیکوریشن اور اسٹیٹس سمبل کے طور پر نمایاں جگہ پر کڑھائی والے سفید رومال سے ڈھانپ کر رکھا جاتا تھا تاکہ گردوغبار سے محفوظ رہے۔ اُس زمانے میں بجلی نہیں تھی چنانچہ یہ بیٹری سے چلتا تھا۔ والد ماجد نے خبروں اور تلاوت کلام پاک کے لئے اس ریڈیو کو گھر میں داخلے کی اجازت دی تھی چنانچہ ہمیں گانے وغیرہ سننے کی اجازت نہیں تھی مگر جب رات کو چھت پر سونے کے لئے جاتے تو ساتھ والی چھت پر سے ریڈیو مظفر آباد سے نشر ہونے والے فرمائشی گانوں کا پروگرام ہم بغیر کسی روک ٹوک کے سن سکتے تھے اور اسی طرح صبح صبح ریڈیو سیلون سے تازہ بہ تازہ گانے بھی سننے کو مل جاتے تھے۔ اس زمانے میں لوگ اپنے ہمسایوں کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ (جاری ہے)

عطاءالحق قاسمی
کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں