تالیوں کی گونج میں نام پکارے جانے لگے، میرا دل اس وقت زور زور سے دھڑک رہا تھا، شاید ٹیچر اب سلیم خالق کہیں، فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ تینوں پوزیشنزکااعلان ہوگیا، میں ہر بار منتظر ہی رہا کہ شاید اگلا نام میرا ہوگا مگر ایسا کچھ نہ ہوا، گھر جا کر اداس بیٹھا تھا کہ والد صاحب نے پوچھ لیا کہ تم امتحان میں پاس تو ہوگئے پھر چہرے پر بارہ کیوں بجے ہوئے ہیں۔
میں نے جواب دیا کہ میری پوزیشن کافی نیچے رہی، اس پر انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے جتنی محنت کی اتنا صلہ ملا،ٹاپ پوزیشنز حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا اس کیلیے سخت محنت کرنا پڑتی ہے،تم تو کرکٹ کھیلنے میں بھی بہت وقت گذارتے ہو،اگر اول آنا ہے تو سب کام چھوڑ کر صرف پڑھائی پر توجہ دو۔
اب اولمپکس میں پاکستان کی میڈلز سے محرومی پر مجھے اپنے والد کی بات یاد آ گئی، ہم بھی ہر کھیل میں اپنے ایتھلیٹس سے یہی امید لگائے بیٹھے رہے کہ گولڈ نہیں تو سلور یا برانز میڈل جیت ہی لیں گے، جب ایسا نہ ہوا تو انھیں بْرا بھلا کہنے لگے، یہ نہ سوچا کہ انھیں سہولتیں کتنی ملیں، تیاریاں کیسے کیں،فنڈز کس حد تک میسر تھے، جب ناکافی تیاریاں ہوں گی تو اس پر تو اگر ارشد ندیم جیسے ایتھلیٹس پانچویں پوزیشن لے رہے ہیں تو انھیں سرآنکھوں پر بٹھانا چاہیے، ہم سب ہر چار سال بعد جاگ جاتے ہیں۔
اس سے پہلے ہمیں پتا ہی نہیں ہوتاکہ کرکٹ کے سوا بھی ملک میں کوئی کھیل ہے،ہم اگر حقیقت کا جائزہ لیں تو ہر کھیل میں بہت پیچھے چلے گئے ہیں،کرکٹ بھی صرف اس وجہ سے زندہ ہے کہ اس میں پیسے کی فراوانی سے کرکٹرز کو سہولتیں مل جاتی ہیں، ورنہ اگر آپ دیکھیں تو ورلڈکلاس نیا ٹیلنٹ آنا بہت کم ہو گیا ہے،ہاکی کا ملک میں کب کا جنازہ اٹھ چکا اور ہم شام کو گھر کے باہر کرسیاں ڈالے بیٹھے ان بزرگوں کی طرح ہو گئے ہیں جو اپنے پرانے کارنامے یاد کر کے خوش ہوتے تھے۔
ماضی میں جو کیا وہ ماضی ہے ابھی کیا کر رہے ہیں اورآگے کیا کر سکتے ہیں یہ بات معنی رکھتی ہے، ہمارے سابق ہاکی اسٹارز اقتدار کے پیچھے بھاگتے رہے، پی آئی اے و دیگر اداروں میں ملازمتیں مل گئیں تو خوب عیش کیے، کھیل کا مستقبل کیا ہوگا کسی نے نہ سوچا،ماضی میں بڑے بڑے سپراسٹارگذرے اب بیچارے موجودہ کپتان کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں ہے، فیڈریشن بس حکومت سے امداد مانگتی رہتی ہے جو کہاں جاتی ہے کسی کو نہیں پتا، کم از کم اس سے کبھی کھیل کی حالت تو نہیں سدھری، اسی لیے اب حکومت بھی انھیں زیادہ رقم نہیں دیتی،فٹبال کو ہم نے اصل میں فٹبال بنایا ہوا ہے اور کک مار کر دور پھینکتے رہتے ہیں، بڑے بڑے لوگوں کو فٹبال فیڈریشن میں اس لیے دلچسپی ہے کہ فیفا سے کروڑوں روپے ملتے تھے۔
اب تو آپس کی لڑائی نے پابندی ہی لگوا دی ہے، گول پروجیکٹ کیلیے کتنی رقم ملی، اس سے ملکی فٹبال میں کیا کوئی تبدیلی آئی؟اسکواش میں ایک زمانے میں ہم ٹاپ پر تھے، اب کہاں ہیں؟ اسنوکر میں کئی عالمی ٹائٹلز جیتے، اب کارکردگی ماضی جیسی نہیں رہی،یقیناً حکومت بھی اس کی ذمہ دار ہے، لوگ عمران خان صاحب پر تنقید کرتے ہیں مگر انھیں تو ابھی آئے ہوئے تین برس ہی ہوئے ہیں، ملک میں کھیلوں کی تباہی تو بہت پہلے شروع ہو چکی تھی،البتہ موجودہ وزیر اعظم اسپورٹسمین رہے ہیں۔
وہ بہتری ضرور لا سکتے ہیں، مگر احسان مانی جیسے اپنے دوست کو ٹاسک فورس کی سربراہی سونپ کر انھیں کیا ملا، وہ تو کرکٹ کو بھی نہیں سنبھال سکے،دیگر کھیلوں کا کیا کرتے،وزیر اعظم کو چاہیے کہ ایک زبردست سا پلان بنوا کر اس پر عمل کرائیں تاکہ اگلے اولمپکس میں ہم کہیں کھڑے نظر بھی آئیں، اسی طرح ملٹی نیشنل و دیگر کمپنیز بھی آگے بڑھیں، وہ کسی ایک کھیل کوسپورٹ کرنے کا اعلان کریں، جیسے کسی نے جیولین تھرو کو سنبھال لیا، ارشد جیسے پلیئرز کو ٹریننگ کے لیے بیرون ملک بھیجیں، کوچز کو یہاں بلائیں،دیگر کھیلوں کو اسی طرح مزید کمپنیز سپورٹ کر سکتی ہیں۔
حکومت بھی اپنا کردار ادا کرے مگرسفارشیوں کو اعلیٰ عہدے سنبھالنے کی کسی صورت اجازت نہ دیں میرٹ پر تقرری کریں، اولمپکس جیسے ایونٹس میں بہت سے کھلاڑی صرف اولمپیئن کا لیبل لگانے کیلیے جاتے ہیں، ایسے شوقین افراد کی جگہ باصلاحیت ایتھلیٹس کو بھیجیں، اکثر فیس بک پر ایسی ویڈیوز شیئر ہو رہی ہوتی ہیں جس میں کوئی پاکستانی لانگ جمپ لگاتے نظر آتا ہے تو کوئی چیتے کی رفتار سے دوڑ رہا ہوتا ہے، یہ ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے۔
اوپن ٹرائلز کرائیں، باصلاحیت ایتھلیٹس کا انتخاب کر کے انھیں اپنی سرپرستی میں لیں اور عالمی مقابلوں کیلیے تیار کریں، افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ہیروز نے اپنے متبادل تیار نہ کیے، وسیم اکرم، جاوید میانداد، جہانگیر خان، جان شیر خان، شہباز احمد یہ سب اپنی جگہ ملک کو نیا ٹیلنٹ نہ دے سکے، انھوں نے کمرشل طور پر تھوڑا بہت کام کیا مگر مشن سمجھ کر کوشش نہیں کی، ہم سب ملک سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، کتنے لوگوں کو علم تھا کہ جیولین تھرو کون سا کھیل ہے، مگر ارشد کے فائنل والے دن سب ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ان کی کامیابی کیلیے دعائیں کر رہے تھے۔
اگر ہم ایسے ہی دیگر کھیلوں میں حصہ لیں تو مزید نوجوان ان کی جانب راغب ہوں گے اور ٹیلنٹ سامنے آئے گا،یقیناً ہم میڈیا کے لوگ بھی کرکٹ کے پیچھے لگے ہوتے ہیں مگر ہم کیا کریں لوگ جو دیکھنا چاہتے ہیں وہی دکھائیں گے، اگر ہاکی میں پاکستان ٹیم پھر اچھا پرفارم کرنے لگے تو لوگ اس میں بھی دلچسپی لیں گے تو میڈیا بھی زیادہ کوریج کرے گا، ابھی آپ خود ایمانداری سے بتائیں کہ بابر اعظم کا انٹرویو دیکھنا چاہیں گے یا کسی ہاکی پلیئر کا؟ ملک میں کھیلوں کے میدان بھی بہت کم ہو گئے ہیں۔
میں نارتھ ناظم آباد کراچی کی مثال دیتا ہوں، بچپن میں ہم دو گراؤنڈز پر اکثر میچز کھیلنے جایا کرتے تھے، ایک پر نجانے کیا تعمیراتی کام ہو رہا ہے اور دوسرے پر ہاکی کی اکیڈمی بنا دی گئی ہے جس کے بارے میں ’’کہانیاں‘‘ اکثر سامنے آتی رہتی ہیں، اگر میدان ہی نہیں ہوں گے تو نوجوان کھیلنے کہاں جائیں گے؟ میڈل درختوں پر نہیں اْگتے، اس کیلیے حکومت کو سب سے پہلے حکمت عملی تیار کرنا ہوگی،اگر سابق اسٹارز، کمپینز اور میڈیا سب مل کر ساتھ دیں تو شاید کھیلوں میں پھر سے پاکستان کا کچھ مقام بن جائے، ورنہ میں یہ کالم محفوظ کر کے رکھ لیتا ہوں، اگر زندگی رہی تو چار سال بعد پھر کام آ جائے گا۔

سلیم خالق
سلیم خالق کی تمام تحاریر ایکسپریس بلا گ سے لی جاتی ہیں. مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں