mughal-empire-w 287

افغانستان سلطنتوں کا قبرستان نہیں بلکہ ان کا غلام رہا ہے

آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ افغانستان کو کوئی فتح نہیں کر سکا اور وہ سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے۔ جس نے بھی اس پر حملہ کیا وہ نیست و نابود ہو گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ آئیے تاریخ میں ایک ڈبکی لگاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔

تاریخ انسانی کی پہلی بڑی سلطنت ایرانی بادشاہ سائرس (کوروش اعظم) کی تھی۔ ڈھائی ہزار سال پہلے وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے شہنشاہ کا لقب اختیار کیا، یعنی شاہوں کا شاہ۔ آپ اس کی سلطنت کا نقشہ دیکھیں۔ امید ہے کہ ہخامنشی سلطنت میں آپ کو دائیں طرف تمام موجودہ افغانستان بھی دکھائی دے گا جو کہ سائرس کی ہخامنشی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ یعنی موجودہ افغان علاقے ایرانی سلطنت کے مفتوحہ غلام تھے۔

01-Cyrus-Empire
آئیے اس کے بعد مقدونیہ کے سکندر اعظم کی سلطنت کو دیکھتے ہیں۔ اس میں بھی آپ کو افغانستان ڈھونڈنے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔ سکندر اور اس کے بعد اس کے مشرقی جانشین سلیوکس اور دیگر یونانی بادشاہوں نے طویل عرصے تک افغانستان کو غلام بنائے رکھا۔

02-Alexander-Empire
اس کے بعد پیش ہے چندر گپت موریہ اور اس کے جانشینوں کی سلطنت کا نقشہ۔ آپ دوبارہ دیکھیں گے کہ موجودہ افغانستان ٹیکسلا اور پاٹلی پتر کے موریہ بادشاہوں کا ایک مفتوحہ علاقہ تھا۔

03-Maurya_Empire_c.250_BCE_2
چند سو سال بعد کی اگلی بڑی سلطنت کو دیکھتے ہیں۔ ساسانی بادشاہ بھی افغانستان پر قابض دکھائی دیتے ہیں۔

04-sassanid-empire
اسلام کا ظہور ہوتا ہے۔ خلفائے راشدین کے دور میں ہی خراسان فتح ہو جاتا ہے۔ لیکن آپ کو ہم اموی خلافت کا یہ نقشہ دکھاتے ہیں۔ افغانستان اس میں بھی ایک مفتوحہ علاقہ ہے۔

05-Ummayad-Caliphate_750b
امویوں کا زوال ہوا۔ عباسی بھی طاقت کھو بیٹھے۔ سمرقند اور بخارا کے سامانی بادشاہ اب افغانستان پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ یہ پھر ایک مفتوحہ علاقہ ہے۔

06-samanid_dynasty_819–999
سامانی سلطنت کو زوال آتا ہے۔ اس کا ترک گورنر الپتگین اس وقت غزنی کے صوبے پر حکومت کر رہا ہے۔ وہ خود مختاری کا اعلان کر دیتا ہے۔ غزنوی سلطنت قائم ہوتی ہے۔ الپتگین کا جانشین اور داماد سبکتگین لاہور کے ہندو شاہی راجوں سے جنگ چھیڑ دیتا ہے جو کہ کابل اور مزار شریف کے علاقوں کے مالک ہیں۔ یہ سب علاقے غزنی کی سلطنت کا حصہ بنتے ہیں۔ محمود غزنوی چار طرف فتوحات کا سلسلہ پھیلاتا ہے اور ایران میں رے، وسطی ایشیا میں ماورا النہر اور ہندوستان میں لاہور تک کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کر لیتا ہے۔ ترکوں کی یہ حکومت موجودہ افغانستان کے علاوہ بھی بہت سے علاقوں پر قابض ہو جاتی ہے۔ مگر پھر وسطی ایشیا کے سلجوق ترک قبائل اسے شکست دے دیتے ہیں اور افغانستان سے نکال دیتے ہیں۔ اب ان کا مرکز لاہور ہے۔

یہ بھی پڑھیں: -   تیسرے پارے کا خلاصہ

07-Ghaznavid_empire_map
اسی اثنا میں پچاس برس کے مختصر عرصے کے لئے دور افتادہ افغان علاقے غور سے غوری سلطنت ابھرتی ہے جس نے 1163 میں سلطان غیاث الدین غوری کے بادشاہ بننے کے بعد عروج پایا اور باقی ماندہ غزنوی سلطنت پر قبضہ کیا۔ لیکن 1215 میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ غوریوں کے متعلق افغان نیشنسلٹ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ پشتون تھے مگر محققین کا عمومی اتفاق ہے کہ وہ تاجک النسل تھے اور ان کا ایران سے تعلق تھا۔ وہ خود کو شنسبانی کہتے تھے۔ تاریخ دانوں کا حکم ہے کہ یہ ساسانی نام وشنسپ سے بگڑ کر عربی میں آل شنسب کہلایا اور فارسی میں شنسبانی۔ یعنی یہ بھی مقامی افغان خاندان نہیں تھا۔

08-ghurid-dynasty-map
اب شہر سبز اور سمرقند سے امیر تیمور نامی تاتاری اٹھا اور افغانستان اس کی سلطنت کا صوبہ بن گیا۔ ازبک سلطان شیبانی خان بھی اس پر قابض رہا۔

09-taimur-empire
پھر کابل کا علاقہ فرغانہ کے حکمران ظہیر الدین بابر نے فتح کر لیا اور یوں یہ مغل سلطنت کا حصہ بنا۔ بابر سے اورنگ زیب تک مغل اس پر حکمران رہے۔

10-mughal-empire
مغلوں کے کمزور پڑنے پر ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار نے افغانستان پر تسلط جمایا۔

11-nadir-shah-Afsharid_Dynasty_1736_-_1802_28AD29

نادر شاہ افشار کے قتل ہونے کے بعد افغانستان نامی ملک پہلی مرتبہ وجود میں آیا جب نادر شاہ افشار کے سردار احمد شاہ ابدالی نے 1747 میں افغان علاقوں پر حکمرانی کا دعوی کر دیا۔ اس سے پہلے کابل اور قندھار عام طور پر ہندوستانی تخت کا حصہ رہتے تھے، ہرات وغیرہ ایرانی سلطنتوں کا اور مزار شریف وغیرہ کے علاقے وسطی ایشیائی سلطنتوں وغیرہ کے صوبے ہوا کرتے تھے۔ احمد شاہ ابدالی کی سلطنت میں ایرانی شہر نیشا پور، موجودہ افغانستان، موجودہ پاکستان اور راجھستان کے کچھ علاقے شامل تھے۔

12-Map_Ahmed_Shah_Durrani_Empire_Afghanistan
ادھر پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1799 میں لاہور فتح کیا اور 1801 میں مہاراجہ کا لقب اختیار کر کے لہور دربار پر تخت نشین ہوا۔ رنجیت سنگھ نے ابدالیوں کو متواتر شکستیں دے کر پنجاب سے نکالا۔ 1813 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ابدالیوں کو شکست دے کر اٹک پر قبضہ کر لیا۔ 1818 میں ملتان فتح کیا۔ اسی سال کشمیر کو ابدالیوں سے لیا۔ 1819 میں پشاور کے ابدالی گورنر دوست محمد خان نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو سالانہ خراج دے کر اس کی سلطنت کا حصہ بننے کا معاہدہ کیا مگر کچھ عرصے بعد بغاوت کر دی۔ 1823 میں نوشہرہ کی جنگ کے بعد پشاور سے آگے درہ خیبر تک کا علاقہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جلال آباد اور کابل پر قبضہ کرنے کے ارادے اس وقت ملیامیٹ ہو گئے جب ایک مختصر فوج کے ساتھ اس کا مایہ ناز سپہ سالار ہری سنگھ نلوہ جمرود کے قلعے کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا۔ 1839 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد پنجاب کی سلطنت انتشار کا شکار ہو گئی اور 1849 میں راج برطانیہ کے تحت آ گئی۔

یہ بھی پڑھیں: -   زندگی اور یادیں اور عمرِ رواں

13-Sikh_Empire_tri-lingual
برطانیہ نے بھی افغانستان سے وسیع علاقے لئے۔ پہلی اینگلو افغان جنگ میں کابل میں موجود برطانوی گیریژن نے امن معاہدہ کیا۔ واپسی پر اس پر حملہ کیا گیا۔ شروع شروع میں یہ سمجھا گیا کہ صرف ایک سپاہی ڈاکٹر ولیم برائیڈن ہی پندرہ ہزار افراد میں سے زندہ بچ سکا ہے۔ اس پر لیڈی بٹلر نے ایک مشہور پینٹنگ بنائی۔ اس جنگ کے بعد افغانستان کی سلطنتوں کا قبرستان ہونے کی غلط فہمی پھیل گئی۔

Remnants_of_an_army2-lady-butler-Dr.-William-Brydon
1878 سے 1880 تک ہونے والی دوسری اینگلو افغان جنگ میں افغانستان کو شکست ہوئی۔ پورے افغانستان پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی سوچا گیا کہ اس کے حصے بخرے کر دیے جائیں اور ہر حصے پر الگ حکمران بنا دیا جائے۔ مگر پھر امیر عبدالرحمان کو حکمران بنا دیا گیا۔ معاہدے کے تحت کوئٹہ، کرم اور پشین کی وادیاں، سبی، درہ خیبر سمیت بہت سے علاقے برطانوی راج کو دے دیے گئے۔ افغانستان کے امور خارجہ بھی برطانیہ کے حوالے کر دیے گئے۔ بدلے میں برطانیہ نے کسی غیر ملکی حملے کی صورت میں افغانستان کی مدد کرنے کی ذمہ داری لی۔ افغانستان کو صرف ایک چیز نے بچایا۔ اور وہ یہ تھی کہ انگریز اپنی ہندوستانی سلطنت اور روسی سلطنت کے درمیان ایک بفر ریاست رکھنا چاہتے تھے۔

تو یہ تھی افغانستان پر غیر ملکی قبضوں کی ایک مختصر ترین تاریخ۔ ابھی ہم نے سفید ہنوں، کشان، منگولوں وغیرہ وغیرہ جیسی بہت سی سلطنتوں کا ذکر نہیں کیا ہے جو کہ اس علاقے پر قابض رہی ہیں۔

اب اگر آپ کسی کو یہ دعوی کرتے ہوئے سنیں کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے اور اس پر کوئی قبضہ نہیں کر سکا ہے، تو اسے یاد دلا دیں کہ جس بڑی طاقت نے بھی اس پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کرنی چاہی ہے، وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ نہ تو روسی افغانستان کو سوویت یونین کا حصہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے، نہ امریکہ اسے اپنی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور نہ برطانوی اسے اپنے ہندوستانی راج کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: -   سیاسی عصبیت یاسیاسی فرقہ؟

جو لوگ اس مغالطے کی تشہیر کر کر کے مختلف عالمی طاقتوں کو افغانستان میں لا لا کر لاکھوں کروڑوں پشتونوں کو مروانے اور بے گھر کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ تو خیر شد و مد سے اس مغالطے کی تشہیر جاری رکھیں گے، مگر اصل تاریخ یہی ہے جو اوپرموجود نقشے دکھا رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان نہیں بلکہ ان کا غلام رہا ہے۔

ویسے چلتے چلتے یہ سن لیں کہ دنیا میں پشتونوں کی کل آبادی کا اندازہ پانچ کروڑ لگایا جاتا ہے۔ اس میں سے صرف ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب افغانستان میں رہتے ہیں جبکہ تین کروڑ سات لاکھ کے قریب ان علاقوں میں رہتے ہیں جو کبھِی افغانستان کا حصہ تھے مگر پہلے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اور اس کے بعد سلطنت برطانیہ نے فتح کر کے اس ملک کا حصہ بنا دیا جسے آج پاکستان کہتے ہیں۔

پھر بھی اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے اور ان کا غلام نہیں، تو اس دعوے کو سچ کرنے کے لئے ہمیں ڈھائی ہزار سال کی تاریخ تبدیل کرنی ہو گی۔ ایسی کوئی بھی غلط فہمی دور کرنے کے لئے پشاور سے لے کر کوئٹہ تک پاکستان کے نقشے پر نظر ڈالنا ہی کافی ہے۔ ڈیورنڈ لائن وہاں جگمگا رہی ہے۔

pakistan-map

اس آخری تصویر میں آپ افغانستان کے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار کے حکمرانوں کی فہرست دیکھ سکتے ہیں۔
پہلی تاریخ اشاعت: 25/02/2017

14-afghan-occupations

adnan-khan-kakar
عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں