آج ہی انصار عباسی صاحب کی ایک دل خراش ٹویٹ نظر سے گزری۔ یقین ہی نہیں آیا کہ ایسی بات عباسی صاحب جیسا نیک اور برگزیدہ بندہ کہہ سکتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں
”جس بے حیائی بے شرمی کا مظاہرہ #HumStyleAwards میں کیا گیا اس پر حکومت، @reportpemra کیوں خاموش ہے، اس پر میڈیا کیوں نہیں بول رہا۔ ایسی بے شرمی بے غیرتی پھیلانے والوں کے خلاف حکومت کو قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ @reportpemra کو متعلقہ چینل پر کم از کم ایک ماہ کی پابندی لگائی جائے۔“
جس بے حیائی بے شرمی کا مظاہرہ #HumStyleAwards میں کیا گیا اُس پر حکومت، @reportpemra کیوں خاموش ہے، اس پر میڈیا کیوں نہیں بول رہا۔ ایسی بے شرمی بے غیرتی پھیلانے والوں کے خلاف حکومت کو قانونی کاروائی کرنی چاہیے۔ @reportpemra کو متعلقہ چینل پر کم از کم ایک ماہ کی پابندی لگائی جائے۔
— Ansar Abbasi (@AnsarAAbbasi) July 6, 2021
ہمارا گمان یہ تھا کہ انصار عباسی صاحب علم و تقوے میں ہم سے کیا بڑے بڑے مفتیان کرام سے بڑھے ہوئے ہوں گے۔ لیکن یہ ٹویٹ دیکھ کر علم ہوا کہ انصار عباسی بھی نہایت شوقین مزاج لگتے ہیں۔ چن چن کر بے حیائی والے پروگرام اتنی دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ ۔ ہم انہیں خبردار کرتے ہیں کہ جدید تحقیق کے مطابق جو افراد فحاشی دیکھنے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں ان کے دماغ کے بعض اہم حصے بہت چھوٹے ہو جاتے ہیں اور پھر ان کو حکیمی کشتوں سے بھی آرام نہیں آتا۔
کیا انہیں یہ علم نہیں کہ سورہ نور میں پہلے مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے بعد جا کر خواتین کے لیے پردے کا حکم آتا ہے۔
علیزے تو چلو گناہگار ہے دین سے دور ہے عباسی صاحب خود ہی شرم حیا کر لیں اور ٹی وی پر فحاشی کی بجائے دعوت و تبلیغ دیکھا کریں۔ اب اگر علیزے صراط مستقیم پر نہیں چلتی اور عورتوں کو دیا گیا پردے کا حکم نظرانداز کرتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس سے پچھلی آیت میں مردوں کو غض بصر کا جو حکم دیا گیا ہے عباسی صاحب اس کو نظرانداز کر دیں؟
ویسے تو ٹی وی دیکھنا ہی بہت بری بات ہے۔ چلو دیکھنا بھی ہو تو اتنے اچھے اچھے دینی چینل موجود ہیں۔ اور کچھ نہیں تو مدنی چینل ہی دیکھ لیں۔ کیا ضروری ہے کہ ایسے خوبصورت اور نیک سیرت بزرگوں کی میٹھی باتیں سن کر اور حنائی داڑھی دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کریں، فیشن شو دیکھ کر دل گرم کیا جائے؟ واللہ ہم خبردار کرتے ہیں کہ عباسی صاحب ایسا کرتے رہے تو پہلے ان کا دل ٹوٹے گا اور پھر وضو۔
بخدا ہم دین دار ہونے کے دعویدار ہرگز نہیں ہیں اور انصار عباسی جیسے عابد و زاہد تو ہرگز نہیں ہیں۔ قسم لے لیں جو ہم خود کو فرشتہ اور دوسروں کو جہنمی سمجھتے ہوں، بس یہ سوچتے ہیں کہ جیسے ہم کمزور سے عاجز سے بندے ہیں ویسے ہی دوسروں میں بھی خامیاں ہوتی ہیں۔ ٹی وی پروگراموں میں بھی ہمیں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔ خاص طور پر اگر ٹی وی پر ایک طرف کوئی فحش پروگرام یا سیاسی ٹاک شو آ رہا ہو تو اینیمل ورلڈ لگانا پسند کرتے ہیں۔
جہاں تک علیزے شاہ کا تعلق ہے تو ابھی تک ہم اس کا وہ پروگرام دیکھنے سے محروم رہے ہیں جس میں عباسی صاحب کی عینی شہادت کے مطابق بے تحاشا بے شرمی اور بے غیرتی موجود ہے۔ عباسی صاحب نے قوم کی توجہ اس کی طرف مبذول کروائی ہے تو ممکن ہے کہ ہم وہ پروگرام دیکھ بھی لیں۔
ہاں نیٹ پر علیزے شاہ کی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہ عاقل بالغ ہے ہم اسے یہ ہدایت دینے کی غلطی تو ہرگز نہیں کریں گے کہ وہ اپنی پسند کی بجائے ہماری پسند کا لباس پہنا کرے، لیکن بہرحال اسے یہ مشورہ ضرور دیں گے کہ مناسب سمجھے تو اس سٹریپ لیس لباس میں سانس احتیاط سے لے۔ سانس باہر نکالتے ہوئے کہیں دیگر معاملات بھی پردہ سیمیں پر جلوہ گر نہ ہو جائیں اور عباسی صاحب تڑپ اٹھیں کہ پاکستان میں ابھی اس طرح کے لباس عام نہیں اور درزی سے بھول چوک ہو سکتی ہے۔
عباسی صاحب کو ہم یہی کہیں گے کہ اپنی شامیں وہ عبادت و ریاضت میں گزارا کریں نہ کہ یوں فسق و فجور کی میڈیائی محفل میں کھویا کریں۔ علیزے شاہ کا کیا ہے، نام سے ہی بخشی ہوئی لگتی ہے۔ سادات میں سے ہو گی کہ نام کے ساتھ شاہ لگاتی ہے، ورنہ پھر بادشاہ حسن تو وہ ہے ہی۔ اگر خدائے بزرگ و برتر وینا ملک کو ہدایت دے کر وطن عزیز کی نیک ترین خواتین میں شامل کر سکتا ہے تو اس کی قدرت سے بعید نہیں کہ وہ علیزے شاہ کو بھی مولانا طارق جمیل سے ملوا دے اور اس کی زندگی نور سے بھر دے۔ علیزے شاہ نے تو اس شو میں بھی ستر کے اسلامی احکامات پورے کیے ہوئے تھے لیکن انڈین میگزین کے فوٹو شوٹ میں وینا ملک کا معاملہ تو وہ تھا جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے
صرف مانع تھی حیا بند قبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جان حیا ایسا کھلا ایسا کھلا
کہاں وہ بے حیائی اور کہاں اب یہ عالم ہے کہ وینا ملک نے نیکی اور تقوے میں ایسا درجہ پایا ہے کہ نہ صرف خواتین کو راہ راست پر آنے کی تلقین کرتی ہے بلکہ مخالف سیاست دانوں کو بھی دعوت دیتی ہے کہ برے کام چھوڑ دو۔ عین ممکن ہے کہ علیزے شاہ بھی تحریک انصاف میں شامل ہو جائے اور اس کے گناہ بھی مولانا طارق جمیل یا مفتی قوی کے دست حق پرست پر دھل جائیں۔
بہرحال ایک بات پر قوم انصار عباسی اور اوریا مقبول جان کی از حد شکر گزار ہے۔ قوم کے نوجوانوں کو ان دو بزرگوں کی برکت سے فحاشی کی تلاش میں گوگل وغیرہ کا رخ نہیں کرنا پڑتا۔ یہ دونوں حضرات درست اور بروقت راہنمائی کر دیتے ہیں کہ فحاشی کہاں سرعام دستیاب ہے اور کہاں ایک منٹ کی ویڈیو میں سپر سلو موشن کر کے کسی ڈیڑھ سیکنڈ کے وقفے میں چشم تصور سے تلاش کی جا سکتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ
عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.