adnan-khan-kakar 202

وہ ترک ناداں کون تھا جس نے خلافت کی قبا چاک کی؟

ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ اقبال نے اتا ترک کے خلافت ختم کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے یہ شعر کہا تھا
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ

کیا یہ شعر اقبال نے واقعی اتاترک کے بارے میں کہا تھا؟ کیا اقبال نے عثمانی خلافت ختم ہونے کی مخالفت کی تھی؟ آئیے اس بارے میں جانتے ہیں۔

اس نظم، ”غرہ شوال یا ہلال عید“ ، کی درست تاریخ اشاعت ہمیں معلوم نہیں ہے۔ یہ بانگ درا کے 1908 کے بعد کی نظموں کے حصے میں شامل ہے اور بظاہر ”جواب شکوہ“ سے پہلے شائع ہوئی تھی جو 1913 ء کے ایک جلسہ عام میں پڑھ کر سنائی گئی۔ یعنی یہ نظم 1908 سے 1913 کے درمیان کسی وقت کہی گئی۔ شرح بانگ درا از ڈاکٹر شفیق احمد، ص۔ 151 کے مطابق یہ پوری نظم ”غرۂ شوال یا ہلال عید“ اکتوبر 1911 ء میں روزنامہ زمیندار کے عید ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی۔

مندرجہ بالا شعر کا پس منظر جاننے کے لیے ہم اس زمانے کے ممتاز صحافی مولانا غلام رسول مہر کی کتاب ”مطالب بانگ درا“ کھولتے ہیں۔
مولانا مہر لکھتے ہیں ”یہ نظم روزنامہ ’زمیندار‘ کے ایک عید نمبر میں شائع ہوئی تھی۔ ہلال عید پر ایسی نظم نہ اس سے پہلے کبھی لکھی گئی اور نہ بعد میں کسی سے بن آئی“ ۔

ترک ناداں والے شعر سے پہلا شعر یہ ہے

ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ

مولانا مہر لکھتے ہیں

”آخری مصرع میں ایران کے ان دردناک واقعات کی طرف ہے جو محمد علی شاہ قاچار کی معزولی کے بعد پیش آئے۔ ایران میں دستوری حکومت کی بنیاد سید جمال الدین افغانی نے رکھی تھی۔ قاچار بادشاہوں کو قوم و ملک کا کوئی خیال نہ تھا اور اپنے عیش و عشرت اور رنگ رلیوں میں لگے ہوئے تھے۔ ناصر الدین شاہ قاچار نے یورپ کے کئی سفر کیے۔ ان میں بہت پیسہ خرچ ہوا اور یورپی فرموں کو اس نے ایران میں کئی ٹھیکے دیے۔ سہ 1896 میں سید جمال الدین افغانی کے ایک شاگرد محمد رضا کرمانی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ قوم نے 1909 میں محمد علی شاہ کو معزول کر دیا۔“

یہ بھی پڑھیں: -   آئو پھر اِک خواب بنیں

چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ

”اس شعر میں سلطان عبدالحمید خان ثانی کو (اپریل 1909 میں ) تخت حکومت اور تخت خلافت سے الگ کر دینے کی طرف اشارہ ہے۔ اس زمانے میں عام مسلمانوں کا خیال یہ تھا کہ سلطان عبدالحمید خان اتحاد اسلامی کے علم دار ہیں جس کی وجہ سے اہل یورپ ان سے ڈر رہے تھے۔ چونکہ سلطان محمد رشاد خان معروف بہ سلطان محمد خامس کے عہد میں دستوری حکومت قائم ہو گئی تھی، اس وجہ سے عام مسلمان سمجھ رہے تھے کہ خلافت اپنی پہلی شکل میں باقی نہیں رہی۔ اقبال اس عقیدے میں عام مسلمانوں کے ہم نوا نہ تھے، لیکن ان کا بھی یہی خیال تھا کہ سلطان عبدالحمید خان کے عہد خلافت کو جو دبدبہ اور شکوہ حاصل تھا، معزولی کی وجہ سے اسے نقصان پہنچا اور عام مسلمانوں کو تخت خلافت سے جو عقیدت تھی اس میں خلل پیدا ہوا۔ ترک اس حقیقت کا صحیح اندازہ نہ کر سکتے اور سادہ مزاجی سے صرف انتظامی اصلاح ہی پر ان کی نظریں جمی رہیں۔ لیکن اس دور میں سلطنت ترکی کے اندرونی حالات کا عموماً کسی کو صحیح اندازہ نہ تھا۔ نہ یہ معلوم تھا کہ سلطان عبدالحمید خان کے جبر، مطلق العنانی اور مخلص قومی کارکنوں پر بے پناہ سختیوں کے باعث کیا کیا مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں۔“

آخری ترک خلیفہ عبدالمجید دوم تھے جن کا دور خلافت 19 نومبر 1922 سے 3 مارچ 1923 تک تھا۔ یعنی یہ شعر خلافت ختم ہونے سے کوئی دس بارہ برس پہلے کہا گیا تھا اور اس کا خلافت کے خاتمے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: -   انحراف کے ریشوں سے بُنا گیا بحران

اقبال اپنے خطبات کے مجموعے ”تجدید فکریات اقبال“ (دی ری کنسٹرکشن آف اسلام تھاٹ ان اسلام) کے چھٹے مقالے میں خلافت کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اتاترک کے جمہوری نظام کی تعریف کرتے ہیں اور پارلیمان کو خلافت کی جدید شکل قرار دیتے ہیں۔ اس مقالے کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔

اسلام میں حرکت کا اصول از علامہ محمد اقبال
آئیے اب دیکھیں کہ [ترکی کی] قومی اسمبلی نے خلافت کے ادارے کے بارے میں اجتہاد کے اختیار کا کس طرح استعمال کیا ہے۔ اہل سنت کے قوانین[فقہ] کی رو سے امام یا خلیفہ کا تقرر قطعاً ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں جو پہلا سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خلافت فرد واحد تک محدود رہنی چاہیے؟ ترکوں کے اجتہاد کی رو سے یہ اسلام کی روح کے بالکل مطابق ہے کہ خلافت یا امامت افراد کی ایک جماعت یا منتخب اسمبلی کو سونپ دی جائے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں برصغیر اور مصر کے علمائے اسلام اس مسئلے پر ابھی تک خاموش ہیں۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ترکوں کا موقف بالکل درست ہے اور اس کے بارے میں بحث کی بہت کم گنجائش ہے۔ جمہوری طرز حکومت نہ صرف یہ کہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے بلکہ یہ عالم اسلام میں ابھرنے والی نئی طاقتوں کے لحاظ سے بہت ضروری ہے۔

جدید مسلم اسمبلی کی قانونی کارکردگی کے بارے میں ایک اور سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ کم از کم موجودہ صورت حال میں اسمبلی کے زیادہ تر ممبران مسلم فقہ (قانون) کی باریکیوں کے بارے میں مناسب علم نہیں رکھتے۔ ایسی اسمبلی قانون کی تعبیرات میں کوئی بہت بڑی غلطی کر سکتی ہے۔ قانون کی تشریح و تعبیر میں ہونے والی غلطیوں کے امکانات کو ہم کس طرح ختم یا کم سے کم کر سکتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیں: -   دو مشاعرے

ایران کے 1906 کے آئین میں علما کی ایک الگ کمیٹی کے لیے گنجائش رکھی گئی تھی جنہیں امور دنیا کے بارے میں بھی مناسب علم ہو اور جنہیں آئین سازی کی قانونی سرگرمیوں کی نگرانی کا حق حاصل تھا۔ میری رائے میں یہ خطرناک انتظامات غالباً ایران کے نظریہ قانون کے حوالے سے ناگزیر تھے۔ اس نظریے کے مطابق بادشاہ مملکت کا محض رکھوالا ہے جس کا وارث درحقیقت امام غائب ہے۔ علما امام غائب کے نمائندوں کی حیثیت سے اپنے آپ کو معاشرے کے تمام پہلوؤں کی نگرانی کے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اگرچہ میں یہ جاننے میں ناکام ہوں کہ امامت کے سلسلے کی عدم موجودگی میں علما امام کی نیابت کے دعوے دار کیوں کر ہو سکتے ہیں۔

تاہم ایرانیوں کا نظریہ قانون کچھ بھی ہو، یہ انتظام بڑا خطرناک ہے۔ تاہم اگر سنی ممالک بھی یہ طریق اپنانے کی کوشش کریں تو یہ انتظام عارضی ہونا چاہیے۔ علما مجلس قانون ساز کے طاقتور حصے کی حیثیت سے قانون سے متعلقہ سوالات پر آزادانہ بحث میں مددگار اور رہنما ہو سکتے ہیں۔ غلطیوں سے پاک تعبیرات کے امکانات کی واحد صورت یہ ہے کہ مسلمان ممالک موجودہ تعلیم قانون کے نظام کو بہتر بنائیں، اور میں وسعت پیدا کریں اور اس کو جدید فلسفہ قانون کے گہرے مطالعے کے ساتھ وابستہ رکھا جائے۔

adnan-khan-kakar
عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں