Attaul-Haq-Qasmi 219

مسدس بدحالی

میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میں نے سید ضمیر جعفری کے ساتھ پندرہ دن تک چوبیس گھنٹے ان کی معیت میں گزارے اور انہیں بے حد قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہم حیدر آباد دکن میں بین الاقوامی طنز و مزاح کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اس حوالے سے بے شمار دلچسپ باتیں بتانے والی ہیں جن میں سے کچھ میں اپنے ایک سفر نامے ’’مسافتیں‘‘ میں بیان کر چکا ہوں۔ اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ اکبر الٰہ آبادی کے بعد طنز و مزاح کی شاعری میں ضمیر جعفری، دلاور فگار اور انور مسعود، اکبر کی روایت کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ مزاح بھی، مگر مزاح میں چھپی دانائی بھی، جو سنجیدہ تحریر سے زیادہ موثر ہوتی ہے ۔ بہرحال یہ مختصر سی تمہید میں نے سید ضمیر جعفری جنہیں انڈیا میں (جمیر زافری) کہا جاتا تھا، کی ایک نظم سنانے کے لئے باندھی ہے جو شاید ساٹھ ستر سال پہلے کہی گئی ہے مگر لگتا ہے شاعر کے مدنظر آج کی صورتحال ہے۔ ہمیشہ زندہ رہنے والی شاعری کا یہی تو کمال ہوتا ہے۔ تو آئیں پھر سید ضمیر جعفری کی نظم ’’مسدس بدحالی‘‘ کے کچھ اشعارسنتے ہیں۔

سیاست کا ہر پہلواں لڑ رہا ہے

یہاں لڑ رہا ہے، وہاں لڑ رہا ہے

بیاں کے مقابل بیاں لڑ رہا ہے

حسابِ دلِ دوستاں لڑ رہا ہے

ستارہ نظر مہ جبیں لڑ رہے ہیں

یہ حد ہے کہ پردہ نشیں لڑ رہے ہیں

مزاجوں میں یوں لیڈری آگئی ہے

یہ بھی پڑھیں: -   پاکستان سے سچی محبت کرنے والے دو پاکستانی!

کہ گھر گھر کی اپنی الگ پارٹی ہے

کوئی شیر ہے تو کوئی لومڑی ہے

یہی اپنی لے دے کے انڈسٹری ہے

نہ منزل نہ جادہ نہ کوئی ارادہ

رضاکار کمیاب، لیڈر زیادہ

اگر گھر میں ہیں خیر سے چار بھائی

تو اک اک نے ڈفلی الگ ہے اُٹھائی

بچھی ہے سیاست کی پتلی چٹائی

بہ ہر تخت پوش و بہ ہر چارپائی

سلیٹی کوئی، توتیائی ہے کوئی

کوئی سرخ ہے، فاختائی ہے کوئی

جلوس اور جلسے میں تکرار ان میں

فساد و فتن کے نمک خوار ان میں

بپا مستقل جوت پیزار ان میں

’’یونہی چلتی رہتی ہے تلوار ان میں‘‘

جو زندہ مہینہ، مردہ مہینہ

یہ کیا زندگی ہے، نہ جینا نہ مرنا

ملوں، پرمٹوں، کارخانوں کے جھگڑے

سیاست کے ’’نودولتانوں‘‘ کے جھگڑے

زبانوں، بیانوں، ترانوں کے جھگڑے

فسانوں پہ ہم داستانوں کے جھگڑے

سرخوان لقمہ اُٹھانے پہ جھگڑا

وہ جھگڑا کہ ہر دانے دانے پہ جھگڑا

حقائق کے آثار دھندلانے والے

جرائد میں شہ سرخیاں پانے والے

یہ ہر قول دے کر مکر جانے والے

یہ ہر ’’میز کرسی‘‘ پہ مر جانے والے

بیاباں کو صحنِ چمن جانتے ہیں

قیادت کو خوراکِ تن جانتے ہیں

دفاتر کا آئین و دستور رشوت

تہی دست لوگوں سے بھرپور رشوت

وہ بیش توفیق و مقدور رشوت

جوانی پہ ہے ’’چشمِ بددور‘‘ رشوت

عجب حرص دولت کا یہ رقص و رم ہے

کہ جیسے ضرورت بہت، وقت کم ہے

مہاجر کی آباد کاری پہ رشوت

دساور کی ’’لیسنسداری‘‘ پہ رشوت

الیکشن کی امیدواری پہ رشوت

وزارت کی پروردگاری پہ رشوت

جو سائل اصولی مثالی رہے گا

یہ بھی پڑھیں: -   شکریہ پروفیسر صاحب

وہ بھرپور دنیا میں خالی رہے گا

امیر اپنے، آرام فرمانے والے

ہر اک ساحلِ نو پہ رقصانے والے

مے ناب و برفاب و جمخانے والے

غریبانِ ملت سے کٹ جانے والے

یہ دوری کوئی بے سبب تو نہیں ہے

محلے کی مسجد کلب تو نہیں ہے

یہ رم اور رمی کے بیمار صاحب

جوئے اور گھڑ دوڑ کے یار صاحب

سمور اور ریشم کے مینار صاحب

رباط اور روما کے سیار صاحب

وہ شیری دھری ہے، یہ وہسکی پڑی ہے

شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی ہے

Attaul-Haq-Qasmi
عطاءالحق قاسمی

کالم نگار کے مزید کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں