ابو الحسن علی بن عبداللہ عبدالجبار الشریف الزرویلی ایک مشہور صوفی تھے جو تصوف کے ایک سلسلے شاذلیہ کے بانی تھے۔ ان کی جائے پیدائش میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک وہ سیتہ کے قریب غمارہ میں 593 ہجری بمطابق 1197 عیسوی کے لگ بھگ پیدا ہوئے اور بعض کے مطابق تیونس میں جبل ظفران کے نزدیک شاذلہ کے مقام پر۔ الزرویلی کی نسبت نسلی طور پر ان کا مراکشی الاصل ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے مریدین کے مطابق ان کا سلسلہ نسب امام حسنؓ تک پہنچتا ہے۔
روایات کے مطابق وہ مطالعے کے اس حد تک شوقین تھے کہ جوانی میں ہی آنکھوں کے عارضے کا شکار ہو گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بصارت سے محروم ہو گئے تھے۔ اس کے بعد وہ کامل طور پر صوفیہ کے اصولوں کے گرویدہ ہو گئے۔ جوانی میں وہ کچھ عرصے کیمیا گری کی طرف بھی متوجہ رہے۔ انہوں نے فاس میں حضرت جنید بغدادی کے خلفا کے خطبات سنے اور ان سے متاثر ہوئے۔
قطب زماں کی تلاش میں انہوں نے مشرق کا سفر کیا اور عراقی صوفیا سے فیض حاصل کیا۔ ایک شیخ نے انہیں کہا کہ وہ قطب کی تلاش المغرب میں کریں تو وہ مراکش واپس پلٹے اور وہاں صوفی عبدالسلام بن مشیش کی صورت میں انہوں نے قطب کو پایا۔
عبدالسلام بن مشیش کے ساتھ وہ کئی برس رہے اور پھر ان کہنے پر وہ تیونس میں اپنے افکار کی اشاعت کے لیے چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق یہ بات بعید از امکان نہیں کہ ان کی واپسی کا سبب مقامی حالات ہوں جو اس حد تک بگڑ گئے تھے کہ شیخ عبدالسلام بن مشیش کو قتل کر دیا گیا۔
وہ شاذلیہ میں رہائش پذیر ہو گئے جہاں ان سے کئی کرامات کا ظہور ہوا۔ ان کی تعلیمات کی عوام میں مقبولیت اور عوام پر ان کے اثر کی وجہ سے ان پر جبر و تشدد کیا گیا تو انہوں نے مصر میں اسکندریہ کے مقام پر پناہ لی۔ وہاں ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بعض سوانح نگاروں کے مطابق جب وہ گھر سے نکلتے تو لوگوں کا ایک ہجوم ان کے ہمراہ ہو جاتا۔
انہوں نے کئی حج کیے اور آخری حج میں حمیترہ کے مقام پر بالائی مصر میں صحرائے عیذاب کو عبور کرتے ہوئے 656 ہجری بمطابق 1258 عیسوی کو وفات پائی۔ بعد از وفات بھی ان کے مزار سے کرامات کا ظہور بیان کیا جاتا ہے۔
الشاذلی نے ایسے خدا رسیدہ آدمی کی زندگی بسر کی جو سیر و سیاحت کے دوران ذکر و فکر میں مشغول رہتے ہوئے خدا کے ساتھ دائمی وصال اور ابدی مسرت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے مریدین کو وہ زندگی کی تمام گھڑیاں عبادت الٰہی میں صرف کر دینے کی تلقین کیا کرتے تھے اور ریاضت و مجاہدہ کو جاری رکھنے پر زور دیتے تھے۔
گو شیخ شاذلی نے روایتی مذہبی تعلیم حاصل کی مگر وہ عقل و منطق کے استعمال میں کوئی روحانی فائدہ محسوس نہیں کرتے تھے۔ روایات کے مطابق انہوں نے عقل پسند معتزلہ کے ساتھ مناظرے کیے اور انہیں تائب کیا۔
شاذلی کی تصانیف میں سب سے مشہور حزب البحر ہے۔ حاجی خلیفہ نے اس حزب سے کئی غیر معمولی خواص منسوب کیے ہیں اور ان کا خیال تھا کہ اس سے شاید بغداد کو ہلاکو خان کی برپا کردہ تباہی سے بچایا جا سکتا تھا۔ ان کی کتابوں میں مریدوں کو سلوک کی منازل طے کروانے کے وظائف اور دعائیں بھی درج کی گئی ہیں اور طویل بحثیں موجود ہیں، ”گو زبان حسب معمول اس طرح کی ہے کہ عام قاری کے پلے کچھ نہیں پڑتا (دائرہ معارف اسلامیہ)“ ۔
وہ چاہتے تھے کہ ان کے پیروکار اپنے اپنے کام اور پیشے میں لگے رہیں اور ممکن ہو تو اپنی روزمرہ کی باتوں کے ساتھ عبادت میں مشغول رہیں۔ وہ گداگری کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ حکومت نے جب ان کی مالی مدد کرنی چاہی تو انہوں نے وہ بھی قبول نہیں کی۔
وہ مریدین کے حوائج اور ضروریات کے مطابق وظائف اور اوراد تجویز کرتے جن کے استعمال سے مافوق الفطرت قوتوں کا حصول ممکن سمجھا جاتا تھا۔
ان کے معتقدین کی بڑی تعداد مصر میں تھی گو شام میں بھی ان کی موجودگی بیان کی جاتی ہے۔ جنوبی عرب کے شہر موخا میں شیخ شاذلی کو شہر کا نگران ولی تصور کیا جاتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ قہوہ نوشی کی ابتدا ان سے ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق ان کی کرامات کے باعث موخا میں قہوے کی پیداوار نے بہت بڑے کاروبار کی حیثیت حاصل کر لی۔
ایک روایت میں ان کے ایک مرید کا حال بیان کیا گیا ہے۔ ”ان (خوگلی بن عبدالرحمان بن ابراہیم) کی خاص بات یہ تھی کہ وہ کتاب و سنت کے پابند تھے اور قول و فعل میں سادات شاذلیہ کے (نمونے اور مثال کے) پیرو تھے۔ مثلاً بصرے کی سبز قبا بدن پر اور سر پر طربوش (ترکی ٹوپی) اور اس پر قیمتی ململ کا عمامہ، پاؤں میں صرموگہ پہنتے، عود ہندی کی دھونی لیتے، خوشبو لگاتے، داڑھی اور کپڑوں پر حبشہ کا مشک ملتے اور یہ سب کچھ شیخ ابو الحسن شاذلی کی تقلید میں۔“ ۔
ایک بار کسی نے ان سے کہا ”قادری صرف سوتی قمیص پہنتے اور بہت کم کپڑا استعمال کرتے ہیں“ ۔ انہوں نے جواب دیا میرا لباس دنیا سے کہتا ہے ”ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں“ لیکن ان کا لباس پکارتا ہے ”ہمیں تیری ضرورت ہے“ ۔
خاتون اول بشری عمران کی خصوصی دلچسپی پر شیخ ابو الحسن شاذلی کے نام پر حال ہی میں صوفی ازم اور سائنس و ٹیکنالوجی ریسرچ سینٹر کا لاہور میں آغاز کیا گیا ہے۔ریسرچ سینٹر میں اسلام، صوفی ازم، مذہبی افکار، رواداری،سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید علوم پر تحقیق و تدوین ہوگی۔
ماخذ:
اردو دائرہ معارف اسلامیہ
انسائکلوپیڈیا آف اسلام

عدنان خان کاکڑ
عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.