’’یار یہ مصباح ڈرپوک کوچ ہے، بابر پر بھی اس کا اثر آنے لگا ہے، زمبابوین بچوں کی ٹیم کیخلاف تو سینئرز کو آرام دے کر تمام نوجوان کرکٹرز کو کھلانا چاہیے، وہی کافی ہوں گے، مگر یہ لوگ نجانے کس بات سے خوفزدہ ہیں‘‘
جب پہلے ٹی ٹوئنٹی کا ٹاس ہوا اور پاکستان نے اپنی نام نہاد مضبوط ترین ٹیم کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا تو اس قسم کے تبصرے سوشل میڈیا اور دوستوں میں آپس کی بات چیت میں سامنے آئے، سچ کہوں تو میرا بھی یہ خیال تھا کہ ابھی نوجوانوں کو نہیں آزمایا تو کب موقع دیں گے،البتہ ظاہر ہے مصباح کو اپنی ٹیم کا بخوبی علم ہے،زمبابوے سے گذشتہ برس ون ڈے کی شکست کا زخم بھی تاحال مندمل نہیں ہوا،اسی لیے وہ ڈرتے ڈرتے تجربات کرتے ہیں، پہلے میچ میں ٹاس جیت کرجب زمبابوے نے بیٹنگ کی دعوت دی تو عام خیال یہی تھا کہ پاکستان 200رنز تو بنا ہی لے گا لیکن ابتدا میں ہی بیٹنگ لائن ڈگمگا گئی۔
اس وقت ہماری ٹیم90 فیصد بابر اعظم اور محمد رضوان پر ہی انحصار کر رہی ہے،مگر سوچنا چاہیے کہ یہ بابراینڈ رضوان الیون نہیں بلکہ پاکستان ٹیم ہے، سب ذمہ داری لیں، فخرزمان کی بعض اچھی اننگز نے ان سے وابستہ توقعات بھی بڑھا دی ہیں، پہلے ٹی ٹوئنٹی میں بابر جلد آؤٹ ہوئے تو رضوان مجبوراً دفاعی خول میں چلے گئے،انھیں پتا تھا کہ اگر وہ بھی جلد رخصت ہو گئے تو 100 رنز بنانے کے بھی لالے پڑ جائیں گے، آپ کو زمبابوین اسپنرز کے نام تک یاد نہیں ہوں گے لیکن پاکستانی بیٹسمینوں کیلیے وہ شین وارن اور مرلی دھرن بنے ہوئے تھے۔
اتنا بے بس تو انھیں جنوبی افریقہ کی بی ٹیم کے سامنے بھی نہیں دیکھا گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ میزبان ٹیم نے4کیچز ڈراپ کر کے کئی بیٹسمینوں کو2،2 باریاں دیں لیکن سوائے رضوان کے کوئی بھی موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکا، زمبابوے کی وکٹ کیپنگ اور گراؤنڈ فیلڈنگ بھی بیحد خراب تھی، آخری اوور میں رضوان اگر 20رنز نہ بناتے تو جیت ناممکن تھی، اس میچ سے بھی واضح ہو گیا کہ پاکستان کی مڈل آرڈر بیٹنگ موجود ہی نہیں ہے، تعریفوں کے شوقین محمد وسیم نے جو اسکواڈ منتخب کیا اس میں سوشل میڈیا اسٹارز کا غلبہ رہا،واہ واہ سمیٹنے کیلیے انھوں نے ایسے کھلاڑیوں کو ٹور پر بھیجا جنھیں ٹی وی پر ہی میچز دیکھنے چاہیے تھے۔
ڈومیسٹک کرکٹ کا زیادہ تجربہ نہ ہونے کے باوجود کئی پلیئرز سلیکٹ ہوئے، ٹاپ 3کے بعد ہمیں کوئی قابل بھروسہ بیٹسمین ہی نظر نہیں آ رہا، بدقسمتی سے محمد حفیظ کی فارم بھی روٹھ گئی ہے، حیدر علی کو مسلسل ناکامیوں کے باوجود ٹیلنٹڈ پلیئر کا ٹیگ لگا کر مسلسل کھلایا جا رہا ہے، دانش عزیز بھی اب تک اوسط درجے کے بیٹسمین دکھائی دیے،فہیم اشرف اور محمد نواز کی کارکردگی میں تسلسل نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے، بولنگ میں شکر ہے ٹیم مینجمنٹ کو شاہین شاہ آفریدی کو آرام دینے کا خیال آ گیا۔
البتہ ہمارا اٹیک اتنا مضبوط دکھائی نہیں دیتا کہ بڑی ٹیموں کو چیلنج کر سکے، حسن علی، فہیم اشرف اور حارث رؤف وقفے وقفے سے کبھی اچھا پرفارم کر جاتے ہیں، اسپنرز کا بھی یہی حال ہے، یقین مانیے اگر موجودہ ٹیم کا کسی مضبوط حریف سے سامنا ہو تو جیتنا آسان نہ ہوگا، ورلڈکپ کے حوالے سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کریں، بابر اور رضوان آخر کتنے میچز جتوائیں گے، فتح کیلیے ٹیم ورک ضروری ہے، یہ ٹھیک ہے کہ جنوبی افریقہ کیخلاف ہوم اینڈ اوے سیریز جیتیں لیکن انھوں نے کئی اہم کرکٹرز کو پاکستان سے واپس بلا لیا تھا اور اب ہوم سیریزمیں کئی اسٹارز کا ساتھ حاصل نہ تھا،یہ بات ماننے کی ہے کہ بابر قسمت کے دھنی ہیں، آپ حالیہ کئی میچز کے اسکور کارڈز اٹھا کر دیکھ لیں۔
بہت معمولی مارجن سے فتوحات ملی ہیں، اب زمبابوے کیخلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی سے بھی اگر ٹیم مینجمنٹ کی آنکھیں نہ کھلیں تو پھر سوتے رہنا ہی ٹھیک ہے، پی سی بی حکام بھی چین کی بانسری بجا رہے ہیں،وسیم خان تو آدھا سال اپنے ملک انگلینڈ میں ہی رہتے ہیں، ایسی پیڈ ہالیڈیز انھیں کسی اور ملازمت میں کہاں ملتیں، احسان مانی کا دل بھی برطانیہ میں زیادہ لگتا ہے، سی او او سلمان نصیر خوش قسمت ہیں، بھارت کیخلاف کیس کرنے کا مشورہ دے کر کروڑوں روپے ڈبونے کے باوجود پروموشن مل گئی،کریڈٹ پر کوئی کامیابی نہ ہونے کے باجود وہ حکام کی آنکھ کا تارا ہیں، سلمان اب انگلینڈ سے واپس آگئے ، سب سے پہلے تو بورڈ آفیشلز کو یاد دلانا ہوگا کہ وہ ای سی بی نہیں بلکہ پی سی بی کے ملازم ہیں۔
پاکستان میں رہتے ہوئے کرکٹ کو بہتر بنانے کا سوچیں، گذشتہ دنوں ایک صاحب سے بات ہو رہی تھی ان سے کسی سی ای او دوست نے یہ کہا کہ وہ 25 سال سے زائد عرصے سے پی سی بی کے ساتھ کام کر رہے ہیں مگر اس سے بدترین انتظامیہ کبھی نہیں دیکھی، سمجھ نہیں آ رہا کہ حکام آخر چاہتے کیا ہیں، انھیں چاہیے کہ زمبابوے سے ٹیم کی واپسی کے بعد کپتان، کوچ، چیف سلیکٹر سمیت سابق ٹیسٹ اسٹارز کی ایک میٹنگ بلائیں جس میں خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لے کر گرین شرٹس کی سمت طے ہو، ابھی تو زمبابوے سے میچ میں بھی ہارنے کا دھڑکا لگا رہتا ہے، میرے لیے بڑا آسان ہے کہ کھلاڑیوں کی خوب تعریفیں کر کے واہ واہ سمیٹیوں لیکن یقین مانیے ہماری ٹیم اتنی مضبوط نہیں ہے، ورلڈکپ چند ماہ دور ہے اور بھارت میں ہونا ہے۔
وہاں گرین شرٹس کو ہارتے دیکھ کر بہت دکھ ہوگا،دیگر ٹیموں کی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہو چکیں اور ہم ابھی کمبی نیشن ہی تشکیل نہیں دے سکے، یہاں شرجیل کو مکمل فٹنس کے بغیر ٹیم میں شامل کر لیا جاتا ہے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے،محمد وسیم سے درخواست ہے کہ ٹویٹر کی دنیا سے باہر نکلیں، وہاں تو ہر کوئی کرکٹ کا ماہر ہے، لیپ ٹاپ کی مدد سے تو کوئی بھی ٹیم بنا سکتا ہے، آپ کی اپنی نظر اور سوچ بھی ہونی چاہیے،بابر کو جب متوازن ٹیم ملے گی تب ہی مثبت نتائج دے سکیں گے،اگر جلدی بہتری نہ لائے تونومبر میں ورلڈکپ کے بعد کئی لوگوں کو گھر جانا پڑے گا، حکام ٹیم کا نہیں تو خود کو ہر ماہ ملنے والے لاکھوں کے چیک کا ہی کچھ سوچیں۔

سلیم خالق
سلیم خالق کی تمام تحاریر ایکسپریس بلا گ سے لی جاتی ہیں. مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں