لاہور کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو اس وقت شدید مایوسی ہوئی جب حاضرین میں سے کسی نے ان کی اس بات پر تالیاں نہیں بجائیں کہ اس تجارتی مرکز سے ملک کو 6 ہزار ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔ جب اس ’اہم اعلان ‘ پر حاضرین نے کسی رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا تو وزیر اعظم کو کہنا پڑا کہ ’لگتا ہے آپ لوگ کل رات دیر سے سوئے تھے اور اب محو خواب ہیں۔ اتنے اہم اعلان پر کوئی تالی ہی نہیں بجاتا‘۔ کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم اب حاضرین کی تالیوں کے محتاج دکھائی دینے لگے ہیں؟
تالیاں حوصلہ افزائی کا اہم حصہ ہوتی ہیں لیکن وزیر اعظم جیسے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی کیا کسی شخص کو اپنے ہر اعلان پر تالیوں کی اتنی چاہ ہوسکتی ہے کہ تالیاں نہ سن کر وہ بدمزہ ہوجائے اور حاضرین سے شکوے کرنے لگے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم درحقیقت اس وقت جس مشکل سیاسی صورت حال کا سامنا کررہے ہیں، اس میں انہیں خاص طور سے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہو اور وہ توقع کرتے ہو ں کہ کسی منصوبے سے آمدنی کے تخمینوں پر تالیاں سن کر انہیں اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین بحران پر قابو پانے کے لئےنئی توانائی مل سکے گی۔ عمران خان حاضرین سے تالیوں کی صورت میں ستائش کی خواہش کرنے والے تنہا لیڈر نہیں ہیں۔ پاکستان میں باہمی ستائش و خوشامد کا ایسا ماحول بنادیا گیا ہے کہ اگر کسی مقرر کی باتوں کا حسب توقع تالیوں سے استقبال نہ کیا جائے تو اسے فطری طور سے مایوسی ہوتی ہے ۔ لیکن جس بے باکی سے عمران خان نے تالیاں نہ بجانے پر برملا مایوسی اور حیرت کا اظہار کیا ہے، اس سے تو یہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یا تو تالیاں بہت ضروری ہیں یا پھر وزیر اعظم اس قدر دباؤ میں ہیں کہ انہیں اس سے نکلنے کے لئے حوصلہ افزائی کی بے حد ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
عمران خان ابھی سری لنکا کے ’کامیاب ‘ دورہ سے واپس آئے ہیں جہاں انہیں پارلیمنٹ سے خطاب میں اپنے دل کی بات کہنے اور وہاں کے مسلمان نمائیندوں سے ملاقات کرنے کا موقع دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ اشک شوئی کے لئے وزیر اعظم کے کولمبو سے روانہ ہونےسے کچھ دیر پہلے سری لنکا کے وزیر صحت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کورونا سے ہلاک ہونے والے لوگوں کو دفنانے یا جلانے کا یکساں موقع دینے کا اعلان کیا ۔ پاکستانی وزیر اعظم نے اس اعلان پر ایک ٹوئٹ کے ذریعے اس دورہ کو عوام کی نگاہوں میں اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں سری لنکا کی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور سری لنکا کی حکومت کے سرکاری نوٹیفکیشن کا خیرمقدم کرتا ہوں جو کووڈ 19 میں مرنے والوں کو تدفین کی اجازت دیتا ہے‘۔ اگرچہ سری لنکن حکام نے دفنانے کی مشروط اجازت دی ہے اور ایسی خواہش کرنے والے اہل خاندان کو سخت پروٹوکول سے گزرنا ہوگا۔ لیکن سری لنکن مسلمانوں اور عمران خان کے درمیان دیوار بننےوالی راجا پاکسا کی حکومت کو معزز مہمان کی دل جوئی کے لئے آخری وقت میں ایک معمولی رعایت دینا پڑی۔ حالانکہ وزیر اعظم راجا پاکسا اس سے پہلے تدفین کی اجازت کا اعلان کرکے اسے واپس لے چکے ہیں۔ اس وقت بھی عمران خان کے چوکس ٹوئٹ پر فوری طور سے ان کی تحسین کی گئی تھی لیکن چند گھنٹے بعد ہی پتہ چلا کہ وہ تو اس تعریف کے ’مستحق ‘ ہی نہیں تھے۔
سری لنکن حکومت کی رعایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسے عالمی سطح پر بھی اس جابرانہ فیصلہ پر شدید تنقید کا سامنا ہے کیوں کہ اس سے مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور وہ سب عقیدے متاثر ہوتے ہیں جو اپنے مرنے والوں کو جلانے کی بجائے دفنانا چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اس بارے میں سری لنکا کی حکمت عملی کو تشویش کی نظر سے دیکھتی ہے اور اسے مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف سری لنکا کی سخت گیر اور متعصبانہ پالیسیوں کا تسلسل سمجھا جارہا ہے ۔ اس مشکل سے بچنے کے لئے کولمبو پاکستان کی سفارتی امداد کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے دیگر اراکین کو بھی سری لنکا کی مدد کرنے پر آمادہ کریں ۔ اس پس منظر میں سری لنکا نے اگر عمران خان کو چلتے چلتے کورونا سے مرنے والے مسلمانوں کی تدفین کی مشروط اجازت والی خبر سنانے کی رعایت فراہم کی ہے تو وہ بالکل انہیں تالیوں جیسی ہے جو عمران خان کو آج لاہور کی تقریب میں تقاضا کرکے وصول کرنا پڑیں۔
ایسی فرمائشی تالیاں اگرچہ حوصلہ افزائی کی بجائے پریشانی میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ یوں تو پاکستان کے خطیبوں اور مساجد کے اماموں کی تقریروں کے دوران تالیاں نہ بجائی جائیں تو وہ بزور تالیاں وصول کرلیتے ہیں لیکن وہ اس کوتاہی پر سامعین کو اللہ رسول کا واسطہ دے کر اتنا شرمندہ کردیتے ہیں کہ ان کی اپنی خفت بالواسطہ شادمانی و کامرانی کا نمونہ بن جاتی ہے۔ عمران خان کی معمولی خفگی کے ساتھ تالیوں کی یاددہانی ہر گز اس سخت سرزنش کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ البتہ وزیر اعظم نے سامعین کو یہ ضرور بتا دیا کہ وہ ملکی ترقی اور ممکنہ معاشی کامیابیوں سے کس قدر لاتعلق ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ عمران خان بائیس سالہ سیاسی زندگی کے بعد اڑھائی سالہ دور اقتدار میں اتنے بلند بانگ دعوے کر چکے ہیں کہ ان کی گونج اب ان کے سب مداحوں کے لئے درد سر بن چکی ہے۔ وہ اپنی جگہ پریشان ہیں کہ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی زوال کے موجودہ حالات میں وہ عمران خان کی کس بات کو سچ جان کر عوام تک پہنچائیں اور کون سی بات کو نظر انداز کرکے اپنی عزت محفوظ رکھیں۔ پاکستانی معیشت ان معنوں میں رو بہ زوال ہے کہ عام شہری پریشان اور بے بس دکھائی دیتے ہیں لیکن اس حد تک مثبت ہے کہ ملک کی وزارت خزانہ پر کہنہ مشق حفیظ شیخ براجمان ہیں اور وہ ہر چند ہفتے بعد وزیر اعظم کے کان میں کوئی ایسا کلمہ پھونکتے ہیں کہ عمران خان لگاتار ٹوئٹ پیغامات میں معاشی بحالی کے عظیم منصوبہ کی کامیابی کا پیغام عام کرنے لگتے ہیں۔ عوام کو جب یہ خوشی اپنی زندگیوں میں دکھائی نہیں دیتی تو وہ اس کا انتقام حکمرانوں کو انتخاب میں شکست سے دوچار کرکے لیتے ہیں۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف اب تک کسی حلقے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کی ہزار وضاحتیں کی جاسکتی ہیں لیکن دل لگتی بات تو یہی ہوگی کہ لوگ حکومت کو مسترد کررہے ہیں اور عمران خان کی ذاتی مقبولیت میں شگاف پڑ چکا ہے۔ روائیتی طور سے حکمران جماعت کو کسی بھی ضمنی انتخاب میں برتری حاصل ہوتی ہے ۔ کیوں کہ اپوزیشن اپنے حامی ووٹروں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوپاتی لیکن حکومت کے حامی بڑھ چڑھ کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ اسی لئے عام طور سے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کے لئے انتخاب جیتنا سہل ہوتا ہے۔ اپوزیشن بھی اسے ’پارٹ آف دی گیم‘ سمجھ کر قبول کرلیتی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخاب میں صورت حال بالکل مختلف تھی۔ اس بار اپوزیشن کا حامی ووٹر بڑھ چڑھ کر باہر نکلا لیکن حکومت کے حامی بے یقینی کا شکار رہے۔
ہر حکومت کو کامیابی کے راستے بتانے والے منتظمین نے تحریک انصاف کی حکومت کو بھی سنہرے اصول سمجھائے تھے۔ ان اشاریوں کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم کو پولنگ بند ہوتے ہی یہ خوش خبری پہنچا دی گئی کہ پنجاب میں وزیر آباد اور ڈسکہ کے حلقے تحریک انصاف جیت چکی ہے۔ تاہم رات ہوتے اتنی دھند چھا گئی کہ ڈسکہ کا انتخاب اس میں غتر بود ہوگیا اور وزیر آباد میں مسلم لیگ کے امید وار کو کامیاب قرار دیا گیا۔ اب الیکشن کمیشن نے ایک تاریخ ساز فیصلہ میں ڈسکہ کے حلقہ این اے 75 کا انتخاب دوبارہ کروانے کا اعلان کیا ہے جبکہ بیس پریزائیڈنگ افسروں کے غائب ہونے کے واقعہ میں متعدد انتظامی افسروں کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دیا ہے۔
اس حلقہ میں ہونے والے انتخاب کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن الیکشن کمیشن کو شاباش دے رہی ہے اور حکومت کو دھاندلی کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے جبکہ تحریک انصاف کے وزیر مشیر الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو ’ناانصافی‘ قرار دے کر اسے مسترد کررہے ہیں۔ اب این اے 75 سے پی ٹی آئی کے امید وار نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح مریم نواز کو یہ طعنہ دینے کا موقع ملا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنا ثابت کرتا ہے کہ تم نے چوری کی ہے۔ اب چوری پکڑی گئی تو اپیلیں کررہے ہو۔ اگر عوام تمہارے ساتھ ہیں تو بھاگتے کیوں ہو؟‘
دوسری طرف نواز شریف نے ایک ویڈیو پیغام میں مطالبہ کیا ہے کہ’ اس انتخاب میں دھاندلی کی سازش کرنے والے تمام عناصر کا سراغ لگانا اور قصور واروں کو سزا دینا ، حلقے میں دوبارہ انتخاب منعقد کروانے سے زیادہ ضروری ہے‘۔ حکومت صاف طور سے دفاعی پوزیشن میں دکھائی دیتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کو یہ موقع دراصل پنجاب حکومت کی نااہلی اور بدانتظامی نے فراہم کیا ہے ۔ عمران خان کو یہ نقص دکھائی نہیں دیتا۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے حوالے بپا ہونے سیاسی ہنگامے نے عمران خان کی سیاسی پوزیشن کو چیلنج کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شاید پاکستان جمہوری تحریک کے تمام احتجاجی جلسوں نے تحریک انصاف اور عمران خان کے اقتدار کو اتنا نقصان نہ پہنچایا ہو جو ایک حلقہ میں بدانتظامی اور الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب حکومت کی ناکامی کے فیصلہ کی وجہ سے حکومت کو پہنچاہے۔
عمران خان ایسے مایوس کن ماحول میں ممکنہ اقتصادی فوائد کی خبروں پر داد و تحسین سمیٹ کر اس مشکل سے نکلنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس سے نکلنے کا راستہ حامیوں کی تالیوں سےنہیں ملے گا بلکہ سرخرو ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ عمران خان سیاسی مخالفین سے احتساب اور جوابدہی کا جو تقاضہ کرتے رہے ہیں ، اب اپنے ساتھیوں اور پنجاب حکومت کے خلاف اسی اصول کو نافذ کریں۔ بصورت دیگر عام شہری کی نظر میں عمران خان اور دیگر سیاسی لیڈروں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ یہی تخصیص عمران خان کی کامیابی کی وجہ رہی ہے۔ اس سے محروم ہو کر وہ صرف تالیوں کی خواہش کرنے تک محدود ہوجائیں گے۔
بشکریہ: ہم سب