adnan-khan-kakar 184

جو خریدتا ہے وہ بیچتا بھی تو ہے

گزشتہ چند دن سے ہلڑ مچا ہوا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں خرید و فروخت بہت ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے چیئرمین سینیٹ پر عدم اعتماد کے موقع پر اپوزیشن حیران پریشان پائی گئی تھی کہ ووٹ تو اس کے زیادہ تھے پھر چیئرمین کو کیسے زیادہ پڑ گئے۔ پھر تکے لگائے جاتے رہے تھے کہ فلاں فلاں نے بیچ منجدھار میں ناؤ بدل لی۔ لیکن چونکہ رائے شماری نہایت ہی خفیہ تھی اس لیے حتمی طور پر پتہ نہیں چل پایا کہ اپوزیشن کے کس کس رکن کو چیئرمین سینیٹ سے سچی محبت ہے۔

اب کچھ عرصے پہلے غیب سے ایک ویڈیو آ گئی ہے جس میں مختلف اسمبلیوں کے اراکین کسی قسم کے کاغذ کی گڈیاں ایک دوسرے کے حوالے کرتے پائے گئے ہیں۔ کھٹ سے الزام لگا دیا گیا کہ جی یہ تو ووٹ خریدے بیچے جا رہے ہیں۔ حالانکہ انصاف سے کام لیا جائے تو عین ممکن ہے کہ صبح سے بجلی گئی ہو، پانی ٹینکی میں نہ چڑھا ہو اور وہ نوٹ نہ ہوں بلکہ ٹائلٹ پیپر ہوں جو مشکل میں مبتلا اراکین کو تھمائے جا رہے ہوں۔

بہرحال اب سینیٹ اراکین کا مسئلہ دوبارہ گرم ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہر بندے کا پتہ چلے کہ اس نے کسے ووٹ دیا ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ رائے شماری خفیہ رکھنا آئینی تقاضا ہے۔ حکومت نے جھٹ سے ایک آرڈیننس نکال دیا کہ آئین کو ایک طرف رکھیں، یہ آرڈیننس اس پر بھاری ہے۔ خیر بعد میں شاید کسی نامعلوم وجہ سے وہ تبدیل کر دیا گیا لیکن ہماری رائے میں تو حکومت کا موقف درست تھا۔ یعنی آئین کا کیا ہے، اصل میں تو صدر ہی مملکت کا نشان ہوتا ہے۔ ہمارا پاسپورٹ ہی دیکھ لیں، صدر کے نام پر دوسرے ملکوں کو کہا جاتا ہے کہ حامل رقعہ ہذا ہمارا بندہ ہے جانے دیں، آئین کے نام پر تو نہیں کہا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: -   پوری تصویر

ویسے بھی جسٹس منیر سے جسٹس ارشاد حسن خان تک بارہا سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نظریہ ضرورت آئین سے بالاتر ہے۔ مئی 2000 کے کیس میں سپریم کورٹ کے بارہ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر قرار دیا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنا درست تھا کیونکہ وہ ”ون مین رول“ بن چکی تھی، اس لیے چیف ایگزیکٹو پاکستان یعنی جنرل پرویز مشرف کو قوم کے وسیع تر مفاد میں تن تنہا آئین بدلنے کا حق حاصل ہے۔ اس فیصلے کو دیکھتے ہوئے ہمارا تو یہی خیال ہے کہ صدر جو چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم سے بالاتر ہوتا ہے وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنے آرڈیننس سے آئین کو درست کر سکتا ہے۔ بہرحال ہماری رائے کوئی نہیں مانے گا۔

خفیہ رائے شماری کے حامی یہ کہتے ہیں کہ اراکین یوں اپنے ضمیر یا کسی دوسری شے کی آواز پر اپنا ووٹ اپنی مرضی سے ڈالیں اور وہ اگر اپنی پارٹی کے فیصلے سے اختلاف کرنا چاہیں تو کر لیں۔ یعنی انہیں غلامی سے بچایا گیا ہے۔ خفیہ رائے شماری کے حق میں ایک رائے یہ دی جا رہی ہے کہ پارٹی کے سربراہ کو اختیار دے دیا جائے کہ تمام ووٹ اس کی مرضی کے مطابق ہوں تو پھر اراکین اسمبلی ربڑ سٹیمپ بن جائیں گے۔ پھر ووٹنگ کی ضرورت ہی کیا ہے، سیدھا سیدھا پارٹی کے سربراہ سے پوچھ لیا جائے کہ صاحب آپ بتائیں کون کون سینیٹر ہو گا۔ یا پھر خواتین کی مخصوص نشستوں کی طرح سینیٹروں کو بھی مخصوص نشستوں پر پارٹی سربراہ کی طرف سے سیٹیں دے دی جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: -   ’عورت مارچ‘ کا منشور

ہماری رائے میں تو یہ مناسب بات ہے۔ یہ کم خرچ بالانشین فارمولا دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے کہ پارٹی سربراہ کو تمام ممبران کی طرف سے ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا جائے تو ہمیں ممبران کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ جس پارٹی کو جتنی سیٹیں ملی ہیں اتنے ووٹ وہ ڈال سکے گا۔ یعنی قومی اور صوبائی اسمبلی کے لمبے لمبے اجلاسوں اور تقریروں سے قوم کی جان چھوٹ جائے گی، کروڑوں اربوں میں پڑنے والے ممبروں کی چھٹی ہو جائے گی۔ پانچ دس پارٹی سربراہان آپس میں معاملات طے کر کے قانون سازی کر لیں گے۔ ہارس ٹریڈنگ کی لعنت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور صدر مملکت کو آرڈیننس بھی جاری نہیں کرنا پڑیں گے۔

بہرحال ہماری رائے اس مرتبہ بھی کوئی نہیں مانے گا۔ آئین بدلنا پڑے گا یا ایک مرتبہ پھر چیف ایگزیکٹو کو اختیار دینا پڑے گا کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آئین درست کر دو۔ دوسری صورت میں اراکین اسمبلی خفیہ ووٹ ڈال دیں گے۔ رکن یہ ووٹ ضمیر کی آواز پر بھی ڈل سکتا ہے، جنرل احتشام ضمیر کی آواز پر بھی، اور عین ممکن ہے کہ سٹیٹ بینک کی جاری کردہ قائداعظم کی آواز پر بھی ڈال دیا جائے۔ اب اگر کسی پارٹی کے ممبران جھک گئے یا بک گئے تو وہ بھگتے، اس نے ایسے اراکین اسمبلی میں پہنچائے ہی کیوں تھے جو بک جاتے ہوں۔

ویسے تو یہ افواہ بھی سننے میں آتی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ بھی بیچے جاتے ہیں۔ بلکہ ہم نے تو یہ تک سنا ہے کہ اراکین اپنے اپنے حلقے کے ووٹر سے بھی ووٹ خریدتے ہیں۔ جو خریدتا ہے وہ بیچتا بھی تو ہے ورنہ کام کیسے چلے گا؟ پارٹی نے اپنے پیسے بنا لیے، ممبر نے اپنے، تو اعتراض کس بات پر ہے؟

یہ بھی پڑھیں: -   جاتے جاتے
adnan-khan-kakar
عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مزید کالم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں