آج کا دن پاکستان، آزادکشمیر اور بالعموم دنیا بھر میں سسکتی ہوئی انسانیت اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف منایا جاتا ہے،یہ دن یوم تجدید عہدہے کہ پاکستان اور کشمیر لازم وملزوم ہیں، کشمیر کی آزادی تکمیل پاکستان کا آخری مرحلہ ہے،پاکستانیوں اور کشمیریوں کے لازوال رشتہ کی پہچان قرار دیا جانے والا یہ دن کئی دہائیوں سے بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے۔
یہ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے درمیان مذہبی، ثقافتی اور سماجی ہم آہنگی کی پہچان بھی ہے۔ کشمیری مسلمانوں نے قیام پاکستان سے قبل ہی اپنا مستقبل نظریاتی طور پر پاکستان کے ساتھ وابستہ کر دیا تھا، جب کہ اہل پاکستان نے آزمائش اور مشکل کے ہر گھڑی میں کشمیری عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نے ظلم وجبر کا ایسا کوئی ہتھکنڈہ نہیں چھوڑا جو بے گناہ اور بے سروسامان کشمیری عوام پر آزمایا نہ گیا ہو لیکن کشمیری عوام جرات، پامردگی اور حوصلے سے اپنے موقف پر قائم ہیں۔کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین چار جنگیں ہوچکی ہیں، پہلی جنگ 1947، دوسری 1965 تیسری 1971 اور چوتھی 1999 میں کارگل کے مقام پر، اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے، جس میں اکثر اوقات پاکستان کی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے۔
میں ہندوستان کا کنٹرول 43 فیصد حصے پر تھا جب کہ پاکستان کے پاس 38 فیصد حصہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی شکل میں ہے، پاکستان پورے خطہ کشمیر کو متنازع سمجھتا ہے، جب کہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے کشمیر ایک الگ آزاد خودمختار ریاست تھی جس پر مہاراجہ کی شخصی حکمرانی تھی اور بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور یہ متنازع علاقہ نہیں کیونکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کا بھارت سے الحاق کیا ہوا ہے،حالانکہ یہ الحاق کشمیری عوام کی مرضی اور منشا جانے بغیر کیا گیا تھا۔
بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 کو تحریک آزادی کی صدا کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے قانون میں تبدیلی کی اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کے نئے دور کا آغاز کیا، ویسے تو کشمیریوں پر ظلم و ستم برسوں پہلے شروع ہوا تھا اور کشمیر کی تقسیم اور بندر بانٹ اونے پونے داموں کرنے کا آغاز کیا گیا تھا مگر ان سب کے باوجود کشمیریوں کی صدائے حریت بھی برسوں سے ہی گونج رہی ہے۔
بھارت کی ماضی کی حکومتوں، چاہے کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کو کبھی نہیں چھیڑا، یہ الگ بات ہے کہ مقبوضہ علاقے میں فوج، پولیس اور دیگر نوعیت کے ظلم و ستم بدستور جاری رہے لیکن کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم نہیں کی گئی مگر 2019 میں نریندر مودی کی حکومت نے اس تار کو بھی چھیڑ دیا اور گزشتہ 5 اگست کو 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا۔
مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے بجائے مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی مظالم انتہا ء پرہیں جہاں طویل ترین لاک ڈاؤن سے کاروبار زندگی مفلوج ہوکررہ گیاہے، جو کہ آبادی کوبناخوراک کے جیل میں بند کرنے کے مترادف ہے جب کہ ایک لاکھ کشمیریوںکی شہادت کے بعدبھی بھارتی فوج انتہائی ڈھٹائی سے بربریت کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے اور مظالم روکنے کے بجائے مقبوضہ وادی کشمیر میں مزید تازہ دم فوجی دستے بھیج دیے ہیں۔
اس وقت کرفیو کے باوجود پوری وادی سراپا احتجاج ہے اور ’’آزادی آزادی‘‘ کی صداؤں سے گونج رہی ہے جب کہ تحریک آزادی کے دوران بھارتی بربریت سے شہید ہونے والے نوجوانوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر بڑے بڑے جلوسوں کی صورت میں آخری منزل تک پہنچایا جارہا ہے، اس سے بھارتی حکمرانوں کے دہشت گردی کے پروپیگنڈے کی دھجیاں بکھر گئی ہیں۔
دنیا بھر میں انسانیت کی اعلیٰ اقدار سے محبت کرنے والے لوگ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ان بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کو سلام پیش کررہے ہیں، جنھوں نے ہر قسم کے مظالم کا سامنا کرنے اور ہر روز اپنے پیاروں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود آزادی و حریت کا پرچم نہ صرف سر بلند رکھا بلکہ ان کی جدوجہد ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ ولولہ انگیز نظرآرہی ہے۔
پاکستان کی 80فیصد اقتصادیات زراعت پر ہے بھارت آبی دہشت گردی کی مقاصد بھی یہی ہے کہ پاکستان کا پانی بند کیا جائے تاکہ پاکستان کے اندر قحط پیدا ہو، اقتصادیات مفلوج اور پاکستان معاشی طور پر تباہی کی طرف جائے۔ بھارت کشمیر کے اندر غیر قانونی طور پر تمام معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستانی پانیوں پر قبضہ کرکے تواتر کے ساتھ چھوٹے بڑے125 ڈیم بنا رہا ہے جن میں درمیانے درجے کے54کے قریب ڈیم ہیں، بھارت آبی جارحیت کے ساتھ کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ہزاروں نوجوانوں کو پیلٹ گن کے ذریعے اندھا کردیا گیا ہے۔
ہزاروں بچوں کے بازو کاٹ دیے گئے، ہزاروں بچے کسی نہ کسی طور پر معذور ہیں، ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا،ہزاروں خواتین کو بیوہ،بچوں کو یتیم اور بوڑھوں کو شہید کردیا گیا۔کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں لیکن عالمی تنظیمیں خاموش ہیں، اس خاموشی کے تدارک کے لیے ہم یک جان ہوکر کشمیریوں کی آزادی کے لیے ڈٹ جائیں۔ ہمیں ہرحال میں اس جدوجہد کا ساتھ دینا اور قربانیاں دینی ہے۔مودی حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیریوں کے حقو ق سلب کرنے کی جو مذموم کوشش کی، اس سے تحریک آزادی کشمیر پوری دنیا میں اجاگر ہوئی ہے۔
بھارتی انتہاپسند چاہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے اور پھر اسے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ مستحکم بنایا جائے۔حکومت پاکستان کی جانب سے کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں کئی بار پہنچایا گیا اور ہر بار اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس کے حل کے لیے بھارت پر زور دیا گیا۔
بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں پر مظالم کے تہتر سال کے بعد تک اس مسئلے کے حل کے سلسلے کی کوششیں جاری ہیں، جس کے لیے کئی فارمولے اور معاہدے ہو چکے ہیں لیکن بھارت کبھی اس معاملے کے حل میں مخلص نہیں رہا۔ جہاں تک بڑی طاقتوں کا تعلق ہے ان کا اپنا طویل المدت مفاد اسی میں ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کبھی امن و امان قائم نہ ہو کیونکہ یہ تاریخی خطہ لا محدود وسائل و معدنیات کا مالک ہے اور کہیں یہ خود آپس میں کوئی سمجھوتہ نہ کر لیں،اور یہ اپنی مرضی سے عالمی سیاست میں اپنا کوئی کردارادا کرنے کے قابل نہ ہوجائیں۔
کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا توبلا شبہ ہے ہی لیکن یہ عصرحاضر کے چند اہم ترین سیاسی اورا نسانی مسائل میںسے ایک نہایت تکلیف دہ مسئلہ بھی ہے۔ کشمیر کی بے پناہ مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے ہمیںاس وقت اپنے سامنے یہ سوال رکھنا چاہیے کہ بطورریاست اور من حیث القوم ہم ایسے کیااقدامات اٹھاسکتے ہیںجن کے ذریعے ہم اپنے کشمیر ی بھائیوںکی بھرپور حمایت کر سکیں۔ پاکستان کو شدید ضرورت ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے اصل صورتحال اور سنگینی کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرے تاکہ بھارتی میڈیا کا مقابلہ کر کے کشمیری عوام سے موقف کی صحیح ترجمانی ہوسکے۔
پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں جو کشمیر کی آزادی اور خودمختاری کو (مسئلہ کشمیر کو) دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کرتے ہیں، آج بھی آئے روز لائن آف کنٹرول پر گولہ باری اور سری نگر میں اکثر و بیشتر کرفیو کی صورتحال رہتی ہے۔
یہ ہی نہیں بلکہ کشمیری عوام اپنے حقوق کے لیے بھارتی فوج پر پتھراؤ کرتے ہیں اور دیگر طریقوں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔پاک و ہند کی آزادی کے تہترسال بعد بھی دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں جس کی وجہ صرف کشمیر ہے، آزادی ہر فرد کا بنیادی حق ہے، کشمیری عوام کب تک بھارت کا ظلم و بربریت برداشت کریں، پاکستان کی جانب سے عالمی سطح پر اس حوالے سے آواز اٹھائی جاتی ہے تاہم بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینے سے گریزاں ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر پاکستان، اقوام عالم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں بند کرائیں اور اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔
کشمیریوںنے بھارت کے تمام تر مظالم کے باوجود اپنے نصب العین کونہیں چھوڑا۔ وہ کسی بھی صورت میں اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوںگے کیونکہ نوجوان نسل سر بکف ہو گئی ہے۔ بھارت پر یہ حقیقت اب واضح ہوجانی چاہیے کہ وہ کشمیریوں کے بنیادی حق،حق خودارادیت میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرے۔ کشمیری عوام ریاست جموں و کشمیر کو ناقابل تقسیم وحدت سمجھتے ہیں۔ کشمیری عوام کے لیے وہی حل قابل قبول ہو گا جو کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحد ہ کی قراردادوں کے مطابق ہو گا اور یہی اس کادیر پا اور پائیدار حل ہو گا۔

ایکسپریس
یہ تحاریر ایکسپریس نیوز کی اجازت سے شائع کی جاتی ہیں. مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں.