Farmers protest in Delhi 420

کسان کی آواز سنو۔۔!

زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں۔2016ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار میں آ ئی تو نرندر مودی نے اپنے کسانوں سے یہ وعدہ کیا کہ 2022ء تک کسانوں کی آمدنی دو گنا کر دونگا مگر 2021ء آگیا اور کسانوں کی حالت پہلے سے بھی خستہ ہو گئی۔انڈیا کی 40 فی صد سے زیادہ آبادی کا ذریعہ معاش کاشت کاری ہے۔کسان کی آمدنی دوسرے ذریعہ معاش والے لوگوں کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم بنتی ہے۔ بیج بونے سے لے کر فصل تیار ہونے تک کسان کا پورا انحصار قرض پر ہوتا ہے اور فصل جب تیار ہو جاتی ہے تو اس سےحاصل ہونیوالی آمدنی اتنی کم ہوتی ہے کہ کسان پریشان ہو جاتا ہےکہ اس سے  قرض چکتا کرے  یا  اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرے۔

ستمبر 2020ء میں انڈین پارلیمنٹ سے کسان بل پاس ہوا جو کہ کسانوں کی پیداوار کے تجارتی علاقوں کے دائرہ کار کو منتخب علاقوں سے لے کر “پیداوار کی کسی بھی جگہ ، جمع ، اجتماع” تک بڑھا دیتا ہے۔الیکٹرانک تجارت اور شیڈول کسانوں کی پیداوار کی ای کامرس کی اجازت دیتا ہے۔ریاست کو ‘بیرونی تجارتی علاقے’ میں منعقدہ کسانوں کی پیداوار کی تجارت کے لئے کسانوں ، تاجروں ، اور الیکٹرانک تجارتی پلیٹ فارمز پر کسی بھی طرح کی مارکیٹ فیس ، سیس ، یا محصول لگانے سے منع کرتا ہے۔کاشتکاروں کو خریداروں کے ساتھ پہلے سے طے شدہ معاہدہ کرنے کے لئے ایک قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے جس میں قیمتوں کا تعین بھی کیا جائے گا۔تنازعات کے حل کے طریقہ کار کی وضاحت کرتا ہے۔غذائی اجزاء جیسے اناج ، دالیں ، آلو ، پیاز ، خوردنی دال اور تیل ضروری اشیا کی فہرست سے ہٹا دیے گئے اور “غیر معمولی حالات” کے علاوہ ایسی اشیاء پر ذخیرہ اندوزی کی حدیں ختم کر دی گئیں۔اس کا تقاضا ہے کہ زرعی پیداوار پر کسی بھی اسٹاک کی حد کا اطلاق قیمتوں میں اضافے پر مبنی ہو۔

یہ بھی پڑھیں: -   سعودی شہری کی ایمبر ہرڈ کو شادی کی پیشکش، آڈیو وائرل ہوگئی

اس بل پر حکومت کی سطح پر بہت تعریف کی گئی مگر کسانوں اور اپوزیشن کے کچھ سیاسی رہنماوں نے اسے کسان دشمنی قرار دیا۔کیوں کہ اس میں قیمتوں کا تعین کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کیا گیا جو کہ ایک لحاظ سے سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔کسانوں کا احتجاج دسمبر 2020ء سے شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے جس میں شدت بھی دیکھی گئی اور کسانوں نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی جس کی ٹرانسپورٹر نےبھی حمایت کی تو کئی ٹرک اور ٹریکٹر انڈیا کی سڑکوں پہ نظر آئے۔

ایک وقت تھا جب انگریزوں کے خلاف انہی کسانوں کو اکٹھا کرنے کے لیے پگڑی سنبھال جٹا تحریک شروع کی گئی جس نے انگریزوں کی ناک میں دم کیے رکھا۔اس ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد ہمارے ملک پاکستان ،جسے ایک زرعی ملک کہا جاتا ہے، میں بھی کسان کی حالت دگرگوں ہے ۔ ہر چیز مہنگی ہو گئی مگر اس سے فائدہ یہاں بھی سرمایہ دار نے ہی حاصل کیا اور کر رہا ہے۔ کسان پہلے سے بھی زیادہ خستہ حالی کا شکار ہوتا جا رہا ہے اسی لیے انڈیا کے کسانوں کی جدوجہد میں پاکستانی کسانوں کادل بھی ان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ہماری حکومت کو چاہیے کہ کسان کی بہتری کے لیےکچھ اقدامات کرے کیونکہ اگر کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں