Family 342

جب سائبان نہ رہا

کسی بھی گھر کا سربراہ اسکا سائبان ہوتا ہےجسے باپ کہتے ہیں جو ساری زندگی پرندوں کی طرح تنکا تنکا اکٹھا کر کے ایک مضبوط آشیانہ بنانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے، جو سارے جہاں کا درد دل میں بسا کر اپنے بچوں کے لیے خوشیاں ڈھونڈتا رہتا ہے جس کے اعصاب پر اپنے بچوں کو خود سے بہتر بہت بہتر بنانے کا جنون سوار رہتاہے اور ان کی بھلائی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتا ہے اپنے تمام دوستوں، رشتہ داروں سے تعلق توڑ کر بھی اپنی اولاد کا ساتھ دیتاہےان کے لیے صعوبتیں برداشت کرتا ہے اور جب تک جسم ساتھ دیتا ہے ان کے لیے محنت کرتا رہتا ہے۔اولاد کا چونکہ زیادہ تر وقت ماں کے ساتھ گزرتا ہے اس لیے ماں کی محبت تو محسوس کر لیتے ہیں مگر باپ کا پیار محسوس نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو دنیا کی ٹھوکریں کھا کر ، دھوپ میں خود کو جلا کر، مصیبتیں اٹھا کر، ان کے لیے آسائشیں خریدنے میں مصروف ہوتاہے وہ ان کی طرف آنے والی ہر مصیبت کے سامنے ایک دیوار کی طرح مضبوط ڈٹ کر کھڑا ہوتاہے۔

کہتے ہیں کسی سیانے بیٹے کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر جب ایک باپ نے پوچھا کہ دنیا میں طاقت ور ترین انسان کون ہے تو بیتے نے جھٹ سے جواب دیا کہ “میں” اور جب اپنا ہاتھ ہٹا کر پوچھا کہ کمزور ترین انسان کون ہے تو بیٹے نے مایوسی سے کہا کہ “میں” ۔اس پر باپ نے حیرانی سے پوچھا کہ یہ کیسے ابھی تم نے خود کو دنیا کا طاقتور انسان بھی بتا دیا اور کمزور ترین بھی، تو بیٹے نے جواب دیا کہ جب تک آپ کا ہاتھ میرے کندھے پر تھا تو میں دنیا کا طاقتور ترین انسان تھا جیسے ہی آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے سے ہٹا دیا تو اسی لمحے میں دنیا کا کمزور ترین انسان بن گیا۔کہنے کو تو یہ ایک کہانی ہے مگر اس کی حقیقت مجھے آج معلوم ہوئی جب باپ کا ہاتھ میرے کندھے سے ہٹ گیا اور اس دنیا میں میرا سائبان نہ رہا۔اب مجھے احساس ہوا کہ باپ ایک ایسی طاقت ہے جو دنیا کے ہر خطرے سے لڑنے کی ہمت دیتا ہے اور آپ کو کبھی ناکام نہیں ہونے دیتا ۔

یہ بھی پڑھیں: -   بورڈ اور فرنچائزز میں اعتماد کی فضا مزیدخراب

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں ایک حادثہ میں میرے بازوکی ہڈی ٹوٹ گئی تو میرا باپ رات کو سو نہیں سکتاتھا میری ہر ایک سسکی پر پوچھتا کہ زیادہ درد تو نہیں ہورہا حالانکہ معلوم تھا کہ درد تو ہو گا مگر وہ تو اپنے اندر کے درد کو چھپانے کے لیے سوال ہوتا تھا اس بات کا احساس تو مجھے باپ بننے کے بعد ہوا۔ہم بہن بھائیوں کے اچھے مستقبل کے لیے دیہات کی آرام دہ زندگی چھوڑ کر شہر میں بسیرہ کیا تاکہ ہمیں اعلی تعلیم حاصل کرنے میں کسی قسم کی مشکل پیش نہ آسکے اور اس کے لیے اپنی زمین ، گاوں کا گھر دوسروں کے حوالے کر کے خود شہر میں ایک چھوٹی سی نوکری سے ہمارا پیٹ بھی بھرتے رہے اور ہمیں تعلیم کے میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہ چھوڑا اور الحمداللہ ہم آٹھ بہن بھائی سارے کے سارے اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔اور یہیں تک نہیں بلکہ تمام کی شادیاں بھی کیں اور کسی قسم کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔اللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے اور ان کی مغفرت فرمائے۔آمین

Abdul Majeed KhakhiMalik Abdul Majeed Khakhi
ماں کی شان تو نرالی ہے ہی کہ اپنے خون سے سینچ کر وہ اولاد کو جان بخشتی ہے اور اسی لیے اس کے قدموں میں جنت رکھی گئی ہے تو باپ جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ ہے چاہو تو اسے راضی کر کے جنت میں داخل ہو جاو اور چاہو تو اسے ناراض کر کے جنت کے دروازے اپنے اوپر بند کر لو یہ اولاد کی صوابدید پر ہے۔باپ کی شان،محبت، حوصلہ،ہمت،عنایات،خدمات کو الفاظ میں نہیں بیان کیا جاسکتا کہ باپ ایک ایسا سائبان ہے جس کی چھاوں میں آرام ہی آرام ہے ،تحفظ ہی تحفظ ہے، راحت ہی راحت ہے اور اس کے بغیر زندگی ایک پر خار راستہ ہے کہ باپ ہی وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد کے راستوں کے تمام کانٹے اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔دنیا میں والدین وہ واحد ہستیاں ہیں جو آپ کی ترقی سے پھولے نہیں سماتے جن میں اپنی اولاد کے لیے حسد نہیں ہوتا جو ساری زندگی اسی لیے محنت کرتے ہیں کہ ان کی اولاد کامیاب ہوسکے پھر چاہے وہ کامیابی دنیا کی ہو یا آخرت کی ہو۔

یہ بھی پڑھیں: -   کیا آپ حجاب میں موجود اس معروف اداکارہ کو پہچانتے ہیں؟

بڑھاپے میں اگر والدین کو پا لیا اور پھر بھی جنت نہیں کما سکے تو اس سے بڑا نقصان نہیں جو اولاد اپنا کرسکتی ہے اور ان کے دنیا فانی سے رخصت کے بعد بھی ان کے لیے صدقہ ، جن سے وہ محبت کرتے تھے ان سے ویسی ہی محبت رکھنااورانکی مغفرت کی دعا ایسے ذرائع ہیں جن سے اولاد اپنی نجات کا راستہ تلاش کر سکتی ہے۔
باپ ہی سرمایہ اولاد ہے
باپ ہی اجداد کی بنیاد ہے
گود ماں کی ،درسگاہ اولین
باپ ہے ،روح جمال دلنشین
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ جن کے والدین حیات ہیں ان کا سایہ اپنی اولاد پر تادیر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین

اردو ہماری اپنی اور پیاری زبان ہے اس کی قدر کیجیے۔
سوچ کو الفاظ کے موتیوں میں پرو کر دوسروں تک پہنچانا ہی میرا مقصد ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

جب سائبان نہ رہا” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں