tlp-protest 262

ریاست اورکالعدم تحریک لبیک پاکستان

2016ء میں ممتاز قادری کو سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا ہو ئی تو ان کے حق میں دینی جماعتوں نے احتجاج شروع کیا ۔ ممتاز قادری سلمان تاثیر کا پرسنل گارڈ تھا اور جب سلمان تاثیر نے کچھ گستاخانہ گفتگو کی تو اس نے 2011ء میں موقع دیکھ کر اسے فائر کر کے مار دیا اور حکومتی ملاوں نے اسے شہید کا رتبہ دیا مگرجو بندہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ و علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا گفتگو کرے اسے شہید کہنا تو شہادت کے رتبے کی توہین ہوگی۔اسی وجہ سے گرفتاری کے بعد سے بہت سی دینی جماعتوں نے ممتاز قادری کے حق میں احتجاج شروع کیا کہ اسے رہا کیا جائے مگر کچھ بیرونی اور کچھ اندرونی دباو کی وجہ سے عدالت نے اسے سزائے موت تجویز کی اور 2016 ء میں اسے پھانسی دے دی گئی مگر اس کی نماز جنازہ میں ملک بھر سے ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی اور وہاں سے تحریک لبیک کو شہرت حاصل ہوئی جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔2017ء میں یہی جماعت حکومت کے خلاف ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آئی اور فیض آباد میں دھرنا دیا ان کا مطالبہ حکومت کی طرف سے ختم نبوت کے حلف نامہ میں ردوبدل نہ کرنا تھا اور یہ بھی تمام مسلمانوں کے دل کی آواز تھی ۔ اور اس وقت کی اپوزیشن نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا جن میں مجاہد ختم نبوت شیخ رشید احمد اور سچے عاشق رسول عمران خان نیازی سمیت جان اللہ کو دینے والے اور بھی کئی ارکان شامل تھے جن کے لبوں پر لبیک لبیک کی پکار تھی ۔میڈیا نے بھرپور طریقے سے اس کی کوریج کی اور 92 نیوز نے تو کمال عشق کی لازوال مثال قائم کی۔

پھر 2018ء تبدیلی کاسال تھا اور حکومت میں مجاہد اور عاشق سارے آ گئے اور چور ، ڈاکو اور مافیا پکڑا گیا۔ حکومت میں آتے ہی سب سے پہلا جو کارنامہ سر انجام دیا وہ آسیہ مسیح کو باعزت طریقے سے کسی محفوظ ملک پہنچانا تھا اور اسے ہمارے وزیر اعظم نے پوری جان فشانی سے سر انجام دیا جس کا اظہار وہ خود کئی فورم پر کر چکے ہیں اور برطانیہ سمیت ان کی سابقہ شریک حیات محترمہ جمائمہ گولڈ سمتھ نے بھی کہا تھا “کہ آسیہ کو قید میں ڈال کر رکھنا اور کسی دوسرے ملک جانے کی اجازت نہ دینا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکومت انتہاپسندوں کے قبضہ میں ہے۔”اس پر جب تحریک لبیک والوں نے ملک گیر ہڑتا کی کال دی توان کے 2800 کے قریب سر کردہ رہنماوں و کارکنوں کو اٹھا کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اور مجبورا اس تحریک کو خاموش ہونا پڑا۔تب بھی حکومت اور تحریک لبیک والوں میں معاہدہ ہوا اور پھر اسکی خلاف ورزی بھی ہوئی اور آسیہ خاموشی سے سپریم کورٹ کے حکم سے باہر جاکر مسلمانوں کا منہ چڑا تی رہی۔ملک میں گستاخیاں بڑھنے لگیں مگر حکومتی ایوانوں میں خاموشی رہی۔ بین الاقوامی سطح پر بھی گستاخی ہوتی رہی مگر فرانس نے تو حد ہی ختم کردی اور باقاعدہ سرکاری سطح پر ایک ملعون کے مکروہ فعل کو نشر کیا جانے لگا اور سرکاری سطح پر اسکی سرپرستی ہونے لگی۔جی ہاں یہ کرنے والا وہ فرانس ہے جہاں مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکمرانی کی جہاں سے یہودیوں نے مسلمانوں کی ہی پناہ میں پھلنا پھولنا شروع کیااور پھر مسیحیوں کو اپنے پنجہ میں لے کر مسلمانوں کے ہر ایک ذی نفس کو چاہے وہ نومولود ہی کیوں نہ ہو، فرانس سے نکال باہر کیا، قتل کیا گیا یا جبری اسلام سے ناطہ توڑنے پر مجبور کیا گیا یہاں تک کہ پورے فرانس میں ایک بھی مسلمان باقی نہ بچا،مسجدیں ویران ہو گئیں اور اذان کی آواز بند کر دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: -   کورونا کیسز میں اضافے پر سنیل شیٹھی کا اپارٹمنٹ سیل کردیا گیا

تحریک لبیک نے اسی فرانس کے خلاف احتجاج شروع کیا اور دنیا کے کئی اسلامی ممالک میں بھی احتجاج ہوا ترکی نے تو سرکاری سطح پر ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا اور ان کے صدر کو دماغی مریض قرار دے دیا مگر پاکستان میں چونکہ وہ لوگ ہیں جو مثالیں ہی انہی کی دیتے ہیں اور زندگی کے مزے بھی وہیں لیتے رہے تو وہ ان کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں۔ اس لیے ہمارے وزیر اعظم نے اپنی پہلی شادی جو کہ فرانس کے ہی دارالخلافہ پیرس میں ہوئی تھی اس کا خیال رکھا اور فرانسیسی مصنوعات پر پابندی تو درکنار اس کی روک تھام کے لیے کوئی بھرپور جواب ہی نہ دے سکے۔ہاں انہی کافروں کے ہاں یہ درخواست ضرور کر دی کہ ذرا ادھر بھی ہو نظر کرم کہ ہم تکلیف میں ہیں۔ یعنی انہی سے زخم کھا کے انہی سے علاج کرانے پہ بضد ہیں ہمارے وزیر اعظم اور کچھ ان کے چاہنے والے انہیں اسی بات پر بہت بڑا عاشق رسول ثابت کرنے پہ تلے ہیں۔ بہر حال تحریک لبیک کے ساتھ باقی تمام مکتبہ فکر والوں نے بھی احتجاج کیا اور مطالبہ تھا فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا اور فرانسیسی مصنوعات کی درآمد پر مکمل پابندی کا۔ حکومت نے ایک معاہدہ کیا کہ دو تین ماہ میں قانون سازی کر کے ا س پر عمل درآمد کریں گے اور سفیر کو ملک سے نکال دیں گے۔ مگر عمل درآمد نہ ہوا تحریک لبیک پھر احتجاج پہ آگئی اور حکومت نے 17 فروری تک کا وقت مانگا ، علامہ خادم حسین رضوی کی رحلت ہو گئی اور تحریک لبیک کے سربراہ ان کے بیٹے حافظ سعد رضوی کو بنا یا گیا۔ حکومت نے پھر عہد شکنی کی اور پھر 20 اپریل تک کا معاہدہ ہوا مگر 12 اپریل کو ہی حافظ سعد حسین رضوی کو نتائج سے بے خبر گرفتار کرلیا گیا جس کے نتیجہ میں ملک میں جلاو و گھیراو ہوا اور پولیس اور مظاہرین میں تصادم کی سی صورتحال پیدا ہو گئی جس کو حل کرنے کی بجائے حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر دہشت گردی قانون 1997ءکے تحت پابندی عائد کر دی۔ مگر انہوں نے احتجاج جاری رکھا اور پھر 18 اپریل کو لاہور خون میں نہا گیا اور ریاست نے اپنے بچے مارنے شروع کر دیے۔ جس کے رد عمل کے طور پر آج تمام دینی جماعتیں احتجاج پر ہیں اور جن پر کچھ دن پہلے حکومت پابندہ لگا کر کالعدم قرار دے چکی تھی آج انہی سے مذاکرات شروع ہونے کو اپنی کامیابی گردانتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: -   ثانیہ مرزا نے ریٹائرمنٹ کی وجوہات بیان کر دیں

وزیر اعظم جناب عمران خان نے قوم سے خطاب کیا اور خود کو اس پوری دنیا میں سب سے بڑا عاشق رسول ثابت کرنے کے لیے بھرپور دلائل دیے بھلے چہرے پہ داڑھی نہیں مگر دل میں ہے عشق رسول صلی اللہ و علیہ وسلم کی آگ برا برلگی ہوئی۔ بھلے درود پڑھنا نہیں آتا اور ختم النبیین پہ زبان لکنت مارجاتی ہے مگر مجھ سے بڑھ کر کوئی مسلمان نہیں جو ان کی ناموس کی حفاظت کر سکے۔ مغرب کو سب سے زیادہ جاننے کے دعوے اور سفیر کو نکالنے سے اپنے ملک کو درپیش خطرات کا ڈر سب کچھ تو کہ ڈالا کپتان نے۔ ساتھ ہی یہ بھی سمجھا دیا کہ غصہ کرنے سے اپنا نقصان ہو گا اس لیےبات جو ہے وہ منت ترلے سے ہی منوائیں گے۔ مگر عرض یہ ہے اگر ایسی ہی بات تھی تو عہد و پیمان کرنے سے پہلے ہی یہ موقف اپنانا تھا نا، اب عہد کیا ہے تو پورا کرو اور نقصان کی پرواہ کیے بغیر سفیر کو نکالو۔مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے کیونکہ بڑے لیڈر ہمیشہ اپنی بات سے یو ٹرن لیتے ہیں.۔جیسے سقو ط کشمیر ہوا اور وہ جو کہتے تھے کہ “میں پوری دنیا میں اسکی آواز بنوں گا “تو کیا ہوا کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا ؟ بلکہ جناب کی زرہ نوازی ومہربانی سے اس کی متنازعہ حیثیت بھی ختم ہو گئی اور بہت تگ و دو سے امن حاصل کرنے والا پاکستان آج اسی کشمیر کی سی کیفیت میں ہے۔ جو مسئلہ تھوڑی سی سوجھ بوجھ سے حل ہو سکتا تھا اسے ہماری حکومت کی اعلی کارکردگی نے خانہ جنگی والی کیفیت میں بدل کر رکھ دیا اور اب پورے شہر لاہور میں مشترکہ فوجی مشقیں جاری ہیں۔ مرنے والے بھی ہم اور مارنے والے بھی ہم۔ روئیں تو روئیں کسے ۔

یہ بھی پڑھیں: -   پاکستان نے پہلے ٹی ٹوئنٹی میں انگلینڈ کو شکست دیدی

فرانس ہمارے نبی مکرم کی شان میں گستاخی کرے اور ہم انہیں کے ترلے لیں کہ مہربانی کریں ایسے نہ کریں ، ہم انہی کے بھائیوں سے کہیں کہ انہیں روکو ہمارے دین کی توہین نہ کریں، کیا وہ روکیں گے یا ہمارے اوپر ہنسیں گے،اتنے گر گئے ہو کیا مسلمانو؟ کیا اپنے رب کے فرمان کو بھول گئے ہو کہ یہود و نصاری تمہارے دوست اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر نہ دیں۔اگر مصلحت ہی اختیار کرنی ہوتی تو حضرت بلال حبشی اتنا ظلم کیوں برداشت کرتے وہ بھی مصلحت اختیار کر لیتے ،دل تو صاف تھا نا ان کا ۔ اگر اپنا نقصان ہی دیکھنا ہوتا تو 313 کبھی ایک ہزار سے نہ ٹکراتا۔ایک 17 سالہ لڑکا چند جانثاروں کے ساتھ ہندوستان جیسے بہت بڑے ملک کو فتح کرنے نہ نکل پڑتا ۔ان کافروں کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے جہاد اگر بات چیت سے مسائل حل ہوتے تو کشمیر اتنا عرصہ جہنم نہ بنا رہتا، اگر بات چیت سے مسائل حل ہوتے تو سویت یونین سے جنگ کیوں کرنی پڑی، اگر بات چیت سے حل نکلتا تو عراق ، افغانستان پر بہانہ بنا کر حملہ نہ ہوتا۔ یا بات چیت سے مسئلہ صرف وہاں حل کرنا ہے جہاں کافروں سے واسطہ ہواور جہاں کافر مسلمانوں سے چاہیں وہاں گردن پاوں کے نیچے دے کر اپنی بات منوا لیں ۔ نفع و نقصان کی مالک صرف ایک ہی ذات ہے اور ہم یہ بات ہمیشہ بھول جاتے ہیں.

اردو ہماری اپنی اور پیاری زبان ہے اس کی قدر کیجیے۔
سوچ کو الفاظ کے موتیوں میں پرو کر دوسروں تک پہنچانا ہی میرا مقصد ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں