ایک دفعہ ایک آدمی نے اپنی زمین کسی دوسرے شخص کو بیچ دی۔ جس شخص نے زمین خریدی اس نے جب فصل بونے کے لیے اس زمین میں ہل چلایا تو زمین کے نیچے سے ایک صندوق برآمد ہوا جو کہ سونے سے بھرا ہو اتھا۔ وہ شخص اسے لے کر اس آدمی کے پاس آیا جس سے اس نے زمین خریدی تھی اور کہا بھائی یہ شایدآپ نے یا آپ کے باپ دادا نے اپنی زمین میں دبائی ہوگی تو میں نے تو زمین خریدی ہےیہ سونا نہیں تو یہ آپ کا ہوا۔ وہ آدمی بولا بھائی نہ ہی میں نے اسے اس زمین میں دبایا اور نہ ہی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرے باپ دادا نے ایسا کوئی ذکر کیا۔میں برسوں سے اس زمین میں فصل اگا رہا ہوں مگر کبھی کوئی ایسا خزانہ مجھے نہیں ملا۔ اب یہ زمین میں نے آپ کو بیچ دی تو اس سے نکلنے والی ہر چیز کے حق دار صرف آپ ہیں۔ اس لیے اسے آپ ہی رکھیں۔غرض دونوں اپنی بات پر قائم رہے اور معاملہ شہر کے قاضی کے پاس چلا گیا۔ قاضی نے جب معاملہ سنا تو اس نے دونوں سے پوچھا کہ کیا تمہاری اولاد ہے۔ دونوں نے کہا جی ہاں، کیوں نہیں ،بیٹے اور بیٹی دونوں ہیں۔ تو قاضی نے کہا تم میں سے ایک اپنے بیٹے کی شادی دوسرے کی بیٹی سے کر دے اور یہ خزانہ انہیں دے دو۔اس طرح وہ دونوں راضی ہوئے اور فیصلہ ہو گیا۔
ایک اور واقعہ جو کہ موجودہ دورکا ہے وہ بھی ملاحظہ ہو کہ ایک کرایہ دار کو گھر کے صحن میں کھدائی کے دوران پیسوں سے بھرا ایک بیگ ملاتو اس نے مالک مکان سے کہا کہ مجھے یہ بیگ پیسوں سے بھرا ہو ا ملا ہے تو میں اب آپ کے گھر کو خریدنا چاہتا ہوں۔ مالک مکان نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے مکان میرا ہے تو اس میں ہر چیز بھی میری ہوئی تم صرف کرائے دار ہو تو یہ سارا پیسہ میرا ہوا۔غرض دونوں کی لڑائی نے طول پکڑا تو معاملہ عدالت میں چلا گیا اور جج صاحب نے تمام معاملہ سن کر یہ فیصلہ دیا کہ چونکہ تمہارا گھر اس ملک کی حدود میں ہے تو اس سے نکلنے والی ہر چیز پر ریاست کا سب سے پہلے حق بنتا ہے۔ اس لیے یہ پیسہ سرکاری خزانہ میں جمع ہوگا اور مزید تمہارے گھر کی کھدائی کی جائے گی تاکہ مزید ملک کا بھلا ہو سکے اور اس کام کے لیے تمہارا گھر بھی بحق سرکار ضبط ہوگا اس لیے ایک ہفتے کے اندر اسے خالی کرانے کا یہ عدالت حکم دیتی ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ میں سے بہت سے لوگ یہ واقعہ سن یا پڑھ چکے ہوں گے مگر یہاں یہ بیان کرنے کا مقصد یہ باور کراناہے کہ جب عوام میں خوف خدا ہو تو حکمران اور عدالتیں جو لوگ قائم کرتے ہیں وہ بھی تو انہیں میں سے ہوتے ہیں نا مطلب جیسی عوام ویسے حکمران والی بات ہے۔حکمران ہو، جج ہو،جرنیل ہویا سیاستدان ہوتے توعوام میں سے ہی ہیں نامطلب ہم میں سے ہی ایک۔اسی لیے تو نظام شریعت ہر ایک کو راعی گردانتی ہے جس سے اس کی رعیت کے بارے سوال کیا جائے گا۔تو آئیے سب سے پہلے تو اپنے گریبان میں ایک نظر ڈالیں کیا ہم اپنی رعیت سے انصاف کر رہے ہیں؟۔ ایک مرد ہے تو اس کی بیوی،بچےاور اسکے نیچے ملازم اسکی رعیت ہیں جن کے بارے سوال ہوگا کہ انصاف کیا، ان کی حفاظت کی، انکی نگہبانی کی۔ ایک عورت ہے توبچے اسکی رعیت ہیں، ایک ادارے کا سربراہ ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت تو اس ادارے میں کام کرنے والے تمام لوگ اسکی رعیت ہیں۔حتی کہ ہماری ملکیت میں رہنے والے جانور بھی رعیت میں شمار ہوں گے۔پہلے ہم خود تو انصاف کرنا سیکھیں مگر ہمارے حالات تو یہ ہیں کہ جب بھی ہمارے پاس کوئی ملکی مفاد کا کام آتا ہے تو سب سے پہلے ہم اس میں سے اپنا فائدہ ڈھونڈتے ہیں ۔یہ دکھ ، پریشانیاں،تکلیفیں ،مصائب،مہنگائی،بےچینی،بے برکتی اور پھر بڑھتے ہوئے قرضے اسی وجہ سے تو ہیں کیونکہ ہم خود تو خوشحال ہونا چاہتے ہیں مگر کوئی دوسرا چاہے وہ ہمارا عزیز ہی کیوں نہ وہ بھوکوں مر جائے تو بھی ہمیں پرواہ نہیں ہوتی۔تبدیلی کی امید حکومت سے لگا کر تنقید کرنے والے اگر اپنے آپ سے تبدیلی کی ابتدا ہی کردیں تو اس معاشرہ میں چند ایک گندی مچھلیوں کے لیے سانس لینا بھی محال ہو جائے گا ورنہ یہ گند بڑھتا جائے گا۔h
اردو ہماری اپنی اور پیاری زبان ہے اس کی قدر کیجیے۔
سوچ کو الفاظ کے موتیوں میں پرو کر دوسروں تک پہنچانا ہی میرا مقصد ہے۔